The Daily Mail Urdu

Sunday, July 17, 2016

ایک فتنے باز یہودی

ایک فتنے باز یہودی
عبداللہ بن سباایک شریراور فتنہ باز یہودی تھا جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے وقت میں منافق بن کر مسلمان ہوگیا تھا۔ کچھ دن مکہ ومدینہ میں رہامگر یہاں اس کاداؤنہ چلا تو پھر یہ منافق شہرابصرہ میں گیا۔
عبداللہ بن سباایک شریراور فتنہ باز یہودی تھا جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے وقت میں منافق بن کر مسلمان ہوگیا تھا۔ کچھ دن مکہ ومدینہ میں رہامگر یہاں اس کاداؤنہ چلا تو پھر یہ منافق شہرابصرہ میں گیا۔ کچھ وہاں نقص پھیلایا پھر کوفہ میں گیا مگر کہیں پورے طور سے اس کو موقعہ نہ ملا۔ جب مصر میں آیاتو اہل مصر کواس بات کی تعلیم دی کی بتاؤ کہ محمد ﷺ کا مرتبہ زیادہ ہے یاعیسیٰ کا؟ سب نے کہا کہ ہمارے حضرت محمدﷺ کا مرتبہ زیادہ ہے۔ اس نے کہا تو بڑا افسوس ہے کہ عیسیٰ  تو قیامت سے پہلے دنیا میں آویں اور کافروں کو ہلاک کریں اور حضور ﷺ نے آویں۔ اور آپﷺ کے دمن جوچاہیں کرتے رہیں یہ بات کب اور کیسے ہوسکتی ہے؟ بعض اہل مصرنے رجعت کایہ مسئلہ مان لیا۔ جب اس یہودی کا یہ داؤ چل گیا تو پھر وہ ایک قدم اور آگے بڑھااور کہنے لگاکہ ہر نبی ایک وصی ہوتا ہے اور جناب نبی کریمﷺ کے وصی حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ خلافت کا حق وصی کاہوتا ہے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے خلافت کو غصب کرلیا ہے تم کسی طرح عثمان رضی اللہ عنہ کو خلافت سے الگ کرو اور علی کو مسند خلافت پہ بٹھاؤ۔ یہ بے دین یہودی حضرت علی رضی اللہ عنہ کابھی خیرخواہ نہ تھا وہ تو محض مسلمانوں میں افتراق پیداکرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ کئی لوگ ا س کے اس داؤ میں بھی آگئے اور کہنے لگے کہ ہم عثمان رضی اللہ عنہ کو کس طرح خلافت سے الگ کریں؟ وہ بولا کہ تم سب سے پہلے تو جوحاکم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے مصر پر مقرر ہیں ان کی شان میں اعتراض کرو۔ وہاں لے لوگوں کو اپنی طرف راغب کرواور جگہ جگہ مصر میں اور بصرہ میں خط روانہ کرو۔ چنانچہ جگہ جگہ سے خط حاکموں کے متعلق شکاتیوں کے لکھے جانے لگے اور رائے عامہ کو اس طور ہموار کیاجانے لگا کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے مقرر کردہ حاکم ظلم کرتے ہیں۔ بہت سے کوفہ اور بصرہ کے لوگ بھی اس سازش میں شریک ہوگئے۔ یہاں تک کہ اہل مصرواہل کوفہ وبصرہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف لکھا کہ اور تو ہم ہر طرح چین سے ہیں مگر آپ رضی اللہ عنہ کے حاکم ہم پر بڑا ظلم کرتے ہیں آپ رضی اللہ عنہ انہیں موقوف کردیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ نے جواب میں لکھا کہ جس جس پر میرے عاملوں نے ظلم کیا ہے وہ اس مرتبہ ضرور حج کرنے آئے۔ میرے عامل بھی آئینگے اس وقت سب کے ظلم کابدلہ ان سے لے جائے گا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ادھر اپنے سب عاملوں کو طلب کرلیا۔ چنانچہ حکام تو سب آگئے مگر شکایت کرنے والوں میں سے کوئی بھی نہ آیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان حاکموں سے پوچھا کہ تم کیوں ظلم کرتے ہو؟ تو ان سب نے عرض کیا کہ یہ بات بالکل غلط اور بناوٹی ہے۔ ہم نے کبھی ظلم نہیں کیا۔ چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی معلوم کرلیا کہ یہ محض شرارت اور جھوٹ کاپلندہ ہے۔

درود شریف کی فضیلت

درود شریف کی فضیلت
ترجمہ:بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم پرصلوٰة بھیجتے ہیں، اے ایمان والو ! تم (بھی) ان پر صلوٰة اور خوب سلام بھیجو۔(سورة الاحزاب:۶۵)اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
ترجمہ:بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم پرصلوٰة بھیجتے ہیں، اے ایمان والو ! تم (بھی) ان پر صلوٰة اور خوب سلام بھیجو۔(سورة الاحزاب:۶۵)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود شریف پڑھتا ہے ، اللہ رب العالمین اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ (مسلم ، نسائی ، ترمذی )۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کثرت سے درود شریف پڑھتا ہوں ، اپنی د عا میں سے کتنا وقت درود شریف کیلئے وقف کروں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !جتنا تو چاہے میں نے عرض کیا : ایک چو تھائی صحیح ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !جتنا تو چاہے ، میں نے عرض کیا : نصف وقت مقرر کروں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جتنا تو چاہے ، لیکن اگر اس سے زیادہ کرے تو تیرے لئے اچھا ہے۔ میں نے عرض کیا : دو تہائی مقرر کروں ؟ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! جتنا تو چاہے ، لیکن اگر زیادہ کرے تو تیرے ہی لئے بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا ،میں اپنی ساری دعا کا وقت درود شریف کیلئے وقف کرتا ہوں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ! یہ تیرے سارے دکھوں اور غموں کیلئے کافی ہو گا اور تیرے گناہوں کی بخشیش کا باعث ہو گا۔ (ترمذی)
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر لانے کا حکم دیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا : آمین ! پھر دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا : آمین ! پھر تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا : آمین !خطبہ سے فارغ ہونے کے بعدجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے نیچے تشریف لائے تو صحابہ اکرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا :آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی بات سنی جو اس سے پہلے نہیں سنی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جبریل علیہ السلام تشریف لائے اورکہا ہلاکت ہے اس آدمی کیلئے جس نے رمضان کا پورا مہینہ پایا اور وہ اپنے گناہ نہ بخشوا سکا۔میں نے جواب میں کہا :آمین۔پھر جب میں نے دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو جبریل علیہ السلام نے کہا :ہلاکت ہو اس آدمی کیلئے جس کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیا جائے اور وہ درود شریف نہ پڑھے۔میں نے جواب میں کہا :آمین۔پھر جب میں نے تیسری سیڑھی پر قدم رکھا ،تو جبریل علیہ السلام نے کہا :ہلاکت ہو اس آدمی کیلئے جس کے سامنے اس کے ماں باپ یا دونوں میں سے ایک بڑھاپے کی عمر کو پہنچے اور وہ انکی خدمت کرکے جنت حاصل نہ کی۔میں نے جواب میں کہا :آمین۔ (حاکم)

شہادت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ

شہادت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ
خلافت راشدہ کے دوسر ے تاجدار اسلامی تاریخ کی اولوالعزم، عبقری شخصیت ،خسر رسول ﷺ داماد علی المرتضیٰ ، رسالت کے انتہائی قریبی رفیق ، خلافت اسلامیہ کے تاجدار ثانی حضرت عمر بن خطاب وہ خلیفہ ہیں جنہیں اپنی مرضی سے نہ بولنے والے پیغمبر خداﷺنے غلاف کعبہ پکڑ کر دعا مانگی تھی
خلافت راشدہ کے دوسر ے تاجدار اسلامی تاریخ کی اولوالعزم، عبقری شخصیت ،خسر رسول ﷺ داماد علی المرتضیٰ ، رسالت کے انتہائی قریبی رفیق ، خلافت اسلامیہ کے تاجدار ثانی حضرت عمر بن خطاب وہ خلیفہ ہیں جنہیں اپنی مرضی سے نہ بولنے والے پیغمبر خداﷺنے غلاف کعبہ پکڑ کر دعا مانگی تھی اے اللہ مجھے عمر بن خطاب عطا فرما دے یا عمرو بن ہشام ۔دعائے رسول کے بعد عمر بن خطاب تلوار گردن میں لٹکائے ہاتھ بندھے سیدھے دروازہ رسولﷺ پر پہنچے صحابہ کرام نے جب یہ آنے کی کیفیت دیکھی تو بارگاہ رسالت میں دست بستہ عرض کی یا رسول اللہ ﷺ عمر اس حالت میں آ رہے ہیں تو آپ نے فرمایا انہیں آنے دو۔نیت اچھی تو بہتر ورنہ اسی تلوار سے اس کا سر قلم کردیا جائے گا۔جب بارگاہ رسالت میں عمر بن خطاب حاضر ہوئے دست رسول ﷺ پر بیعت کر کے کلمہ طیبہ پڑھا تو فلک شگاف نعروں سے نعرہ تکبیر کی صدائیں بلند ہوئیں تو ہر طرف بخِِ بخِِ کی صدائیں گونجیں جس عمر بن خطاب کے آنے پر اتنی خوشیاں منائی گئیں ۔جس کے رعب اور دب دبہ سے دشمنان اسلام اس قدر حواس باختہ ہوتے تھے کہ بے شک یہ مرد قلندر کھلے آسمان تلے تن تنہا تلوار اور کوڑا لٹکا کر آرام کر رہا ہوتا تھا مگر کسی کو یہ جرا ت نہ ہوتی تھی کہ عمر بن خطاب کا کوڑا یا تلوار اْٹھاتا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ دوسرے خلیفہ راشد ہیں ، نبی اکرم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد آپ کا رتبہ سب سے بلند ہے آپ کے بارے میں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا(ترمذی ) ۔عمر کی زبان پر خدا نے حق جاری کر دیا ہے (بیہقی)، جس راستے سے عمر گزرتا ہے شیطان وہ راستہ چھوڑدیتا ہے (بخاری ومسلم)۔میرے بعد ابوبکر وعمر کی اقتداء کرنا( مشکٰو)۔ آپنے ہجرت نبوی کے کچھ عرصہ بعد بیس افراد کے ساتھ علانیہ مدینہ کو ہجرت کی ، آپ نے تمام غزوات میں حصہ لیا۔634ء میں خلافت کے منصب پہ فائزکیے گئے۔644ء تک ا س عہدہ پر کام کیا۔
آپ کے دور خلافت میں اسلامی سلطنت کی حدود 22لاکھ مربع میل تک پھیلی ہوئی تھیں آپ کے اندازحکمرانی کودیکھ کر ایک غیر مسلم یہ کہنے پہ مجبور ہوگیاکہ اگر عمر کو 10سال خلافت کے اور ملتے تو دنیا سے کفر کانام ونشان مٹ جاتا۔ حضرت عمر کازمانہ خلافت اسلامی فتوحات کا دور تھا۔اس میں دو بڑی طاقتوں ایران وروم کو شکست دے کرایران عراق اور شام کو اسلامی سلطنتوں میں شامل کیا۔بیت المقدس کی فتح کے بعدآپ خودوہاں تشریف لے گئے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا مشہور قول ہے کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو عمر سے پوچھا جائے گا اس قدر خوف خدا رکھنے والا راتوں کو جاگ کر رعایا کی خدمت اور جس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کی تائید میں سورئہ نور کی آیات مبارکہ کا نازل ہونا جس نے اپنی آمد پر مدینہ کی گلیوں میں اعلان کیا۔کوئی ہے جس نے بچوں کو یتیم کرانا ہو ، بیوی کو بیوہ کرانا ہو ، ماں باپ کی کمر جھکانا ہو ، آنکھوں کا نورگم کرانا ہو ،آئے عمر نے محمد رسول اللہ ﷺ کی غلامی کا دعویٰ کر لیا ہے آج سے اعلانیہ اذان اور نماز ہوا کرے گی۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سب سے پہلے امیرالمومنین کہہ کر پکارے گئے آپ نے بیت المال کا شعبہ فعال کیا اسلامی مملکت کو صوبوں اور ضلعوں میں تقسیم کیا عشرہ خراج کا نظام نافذ کیا مردم شماری کی بنیاد ڈالی قاضیوں کیلئے خطیر تنخواہیں متعین کیں۔ احداث یعنی پولیس کا محکمہ قائم کیا جیل خانہ وضع کیا اورجلاوطنی کی سزا متعارف کی سن ہجری جاری کیا زراعت کے فروغ کیلئے نہریں کھدوائیں۔
اسلام کے اس عظیم سپوت کی فتوحات سے اہل باطل اتنے گھبرائے کے سازشوں کا جال بچھا دیا اور ایک ایرانی بد بخت مجوسی ابو لولو فیروز نے یکم محرم الحرام 23 ہجری کو امام عدل و حریت ، خلیفہ راشد، امیر المومنین ، فاتح عرب وعجم پر حملہ کر کے مدینہ منورہ میں شہید کر دیا۔آپ روضہ رسول ﷺ میں آنحضرت ﷺ کے پہلو مبارک میں مدفن ہیں۔

ضروریات زندگی میں اسراف اور کشادگی

Mufti Taqi Usmani Sahab 
ضروریات زندگی میں اسراف اور کشادگی(فراخ دلی) میں فرق کس طرح کیا 
جائے؟

بعض لوگوں کے دلوں میں یہ خلجان رہتا ہے کہ شریعت میں ایک طرف تو فضول خرچی اور اسراف کی ممانعت آئی ہے اور دوسری طرف یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ گھر کے خرچ میں تنگی مت کرو، بلکہ کشادگی سے کام لو،اب سوال یہ ہے کہ دونوں میں حد فاصل کیا ہے؟ کونسا خرچہ اسراف میں داخل ہے اور کونسا خرچہ اسراف میں داخل نہیں؟اس خلجان کے جواب میں حضرت تھانوی رحمہ نے گھر کہ بارے میں فرمایا کہ ایک گھر وہ ھوتا ہے جو قابل رہائش ہو، مثلا جھونپڑی ڈال دی یہ چھپڑ ڈال دیا اس میں بھی آدمی رہائش اختیار کر سکتا ہے،یہ تو پہلا درجہ ہے،جو بلکل جائز ہے۔دوسرا درجہ یہ ہے کہ رہائیش بھی ہو اور ساتھ میں آسائش بھی ہو،مثلا پختہ مکان ہے،جس میں انسان آرام کے ساتھ رہ سکتا ہے،اور گھر میں آسائیش کے لیے کوئی کام کیا جائے تو اس کی ممانعت نہیں ہے،اور یہ بھی اسراف میں داخل نہیں، مثلا ایک شخص ہے وہ جھونپڑی میں بھی زندگی بسر کر سکتا ہے اور دوسرا شخص جھونپڑی میں نہیں رہ سکتا اس کو تو رہنے کے لیے پختہ مکان چاہیے، اور پھر اس مکان میں بھی اس کو پنکھا اور بجلی چائیے، اب اگر وہ شخص اپنے گھر میں پنکھا اور بجلی اس لیے لگاتا ہے تاکہ اس کو آرام حاصل ہو تو یہ اسراف میں داخل نہیں۔تیسرا درجہ یہ ہے کہ مکان میں آسائیش کہ ساتھ آرئیش بھی ہو،مثلا ایک شخص کا پخہ مکان بنا ہوا ہے، پلاستر کیا ہوا ہے، بجلی بھی ہے، پنکھا بھی ہے، لیکن اس مکان پر رنگ نہیں کیا ہوا ہے، اب ظاہر ہے کہ رہائیش تو ایسے مکان میں بھی ہو سکتی ہے،لیکن رنگ و روغن کہ بغیر آرائیش نہیں ہو سکتی اب اگر کوئی شخص آرئیش کے حصول کے لیے مکان پر رنگ و روغن کرائے تو شرعاً وہ بھی جائز ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ رہائش جائز،آسائش جائز، آرائش جائز،اور آرائش کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی انسان اپنے دل کو خوش کرنے کے لیے کوئی کام کر لے تاکہ دیکھنے میں اچھا معلوم ہو، ہیکھ کر دل خوش ھو جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،شرعاً یہ بھی جائز ہے۔اس کے بعد چوتھا درجہ ہے “نمائش”، اب جو کام کر رہا ہےاس سے نا تو آرام مقصود ہے، نہ آرائش مقصود ہے بلکہ اس کام کا مقصد صرف یہ ہے کہ لوگ مجھے بڑا دولت مند سمجھیں، اور لوگ یہ سمجھیں کہ اس کےپاس بہت پیسا ہے،اور تاکہ اس کے زریعہ دوسروں پر اپنی فوقیت جتائوں اور اپنے آپ کو بلند ظاہر کروں،یہ سب “نمائش” کہ اندر داخل ہیں اور یہ شرعاً نا جائز ہے اور اسراف میں داخل ہے۔یہی چار دراجات لباس اور کھانے میں بھی ہیں، بلکہ ہرچیز میں ہیں،ایک شخص اچھا اور قیمتی کپڑا اس لیے پہنتا ہے تاکہ مجھے آرام ملے اور تاکہ مجھے اچھا لگے اور میرے گھر والوں کو اچھا لگے، اور ملنے جلنے والے اس کو دیکھ کر خوش ہوں،تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،لیکن اگر کوئی شخص اچھا اور قیمتی لباس اس نیت سے پہنتا ہے تاکہ مجھے دولت مند سمجھا جائے مجھے بہت پیسے والا سمجھا جائے اور میرا بڑا مقام سمجھا جائے تو یہ نمائش ہے اور ممنوع ہے،اسی لیے حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ نےاسراف کے بارے میں ایک واضح حد فاصل کھنچ دی کہ اگر ضرورت پوری کرنے کے لیے خرچ کیا جا رہا ہے، یہ آسائش کہ حصول کے لیے یہ اپنے دل کو خوش کرنے کے لیےآرائش کے خاترکوئی خرچہ کیا جا رہا ہے وہ اسراف میں داخل نہیں۔میں ایک مرتبہ کسی دوسرے شہر میں تھا اور واپس کراچی آنہ تھا، گرمی کا موسم تھا،میں نے ایک صاحب سے کہا کہ ائیر کنڈیشن کوچ میں میرا ٹکٹ بک کرا دو، اور میں نے ان کو پیسے دے دیے، ایک دوسرے صاحب پاس بیٹھے ہوئے تھے،انہوں نے فورنً کہا کہ صاحب! یہ تو آپ اسراف کر رہے ہیں اس لیے کہ ائیر کنڈیشن کوچ میں سفر کرنا تو اسراف میں داخل ہے، بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اگر اوپر کہ درجے میں سفر کر لیا تو یہ اسراف میں داخل ہے، خوب سمجھ لیجئے! اگر اوپر کے درجے میں سفر کرنے کا مقصد راہت حاصل کرنا ہے،مثلاً گرمی کا موسم ہے، گرمی برداشت نہیں ہوتی، اللہ تعالیٰ نے پیسے دیے ہیں تو پھر یس درجے میں سفر کرنا کوئی گناہ اور اسراف نہیں ہے،لیکن اگر اوپر کہ درجے میں سفر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جب میں ائیر کنڈیشن کوچ میں سفر کروں گا تو لوگ یہ سمجھیں گے کہ یہ بڑا دولت مند آدمی ہے، پھر وہ اسراف اور ناجائز ہے،اور نمائش میں داخل ہے، یہی تفصیل کپڑے اور کھانے میں بھی ہے

حضرت آدم علیہ السلام کا واقعہ

اور (اے پیغمبر! اس وقت کا تصور کرو) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا کہ : ”میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔” تو وہ کہنے لگے۔”کیا تو اس میں ایسے شخص کو خلیفہ بنائے گا جو اس میں فساد مچائے گا اور (ایک دوسرے کے) خون بہائے گا۔

(البقرہ )
ترجمہ:
اور (اے پیغمبر! اس وقت کا تصور کرو) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا کہ : ”میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔” تو وہ کہنے لگے۔”کیا تو اس میں ایسے شخص کو خلیفہ بنائے گا جو اس میں فساد مچائے گا اور (ایک دوسرے کے) خون بہائے گا۔جبکہ ہم تیری حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح وتقدیس بھی کر رہے ہیں۔”اللہ تعالیٰ نے انہیں جواب دیا کہ ”جو کچھ میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔” (اس کے بعد) اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے اسماء (نام یا صفات و خواص) سکھا دیئے۔ پھر ان اشیاء کو فرشتوں کے روبرو پیش کر کے ان سے کہا کہ اگر تم اپنی بات میں سچے ہو تو مجھے ان اشیاء کے نام بتا دو”۔ فرشتے کہنے لگے نقص سے پاک تو تیری ہی ذات ہے۔ ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تو نے ہمیں سکھایا ہے اور ہر چیز کو جاننے والا اور اس کی حکمت سمجھنے والا تو تو ہی ہے۔”۔ اللہ تعالیٰ نے آدم سے فرمایا ”اے آدم! ان (فرشتوں) کو ان اشیاء کے نام بتا دو۔” تو جب آدم نے فرشتوں کو ان چیزوں کے نام بتا دیئے تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا : کیا میں نے تمہیں یہ نہ کہا تھا کہ میں ہی آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتیں جانتا ہوں اور ان باتوں کو بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور ان کو بھی جو تم چھپاتے ہو؟”۔ اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ : آدم کو سجدہ کرو۔ تو سوائے ابلیس کے سب فرشتوں نے اسے سجدہ کیا ابلیس نے اس حکم الہی کو تسلیم نہ کیا اور گھمنڈ میں آ گیا اور کافروں میں شامل ہوگیا۔ پھر ہم نے آدم سے کہا کہ: تم اور تمہاری بیوی دونوں جنت میں آباد ہوجاوٴ اور جہاں سے چاہو (اسکے پھل) جی بھر کے کھاوٴ۔ البتہ اس درخت کے پاس نہ پھٹکنا ورنہ تم دونوں ظالموں میں شمار ہوگے۔ آخر کار شیطان نے اسی درخت کی ترغیب دیکر آدم و حوا دونوں کو ورغلا دیا۔ اور جس حالت میں وہ تھے انہیں وہاں سے نکلوا کر ہی دم لیا۔ تب ہم نے کہا: تم سب یہاں سے اتر (نکل) جاوٴ۔ کیونکہ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو۔ اور اب تمہیں ایک معین وقت (موت یا قیامت ) تک زمین میں رہنا اور گزر بسر کرنا ہے۔ پھر آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی۔ بلاشبہ وہ بندوں کی توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔ ہم نے کہا : تم سب کے سب یہاں سے نکل جاوٴ۔ پھر جو میری طرف سے تمہارے پاس ہدایت آئے اور جس نے میری ہدایت کی پیروی کی تو ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
حضرت آدم علیہ السلام دنیا کے پہلے انسان بھی ہیں اور پیغمبر بھی۔ جب اللہ نے انسان کو دنیا میں بھیجنے کا ارادہ کیا تو اس سے قبل چند اہم اقدامات کئے۔ ایک اقدام تو یہ تھا کہ تمام انسانوں کی ارواح کو شعور دے کر انہیں دنیا کی زندگی کی آزمائش کے بارے میں بتایا کہ انہیں اچھے اور برے کی تمیز کی آزمائش میں ڈالا جارہا ہے اور جو کامیاب ہوگا اس کا بدلہ جنت اور ناکاموں کا بدلہ جہنم ہے۔سورہ احزاب کی ایک آیت کے مطابق انسان نے اس اسکیم کو سمجھ کر اسے قبول کرنے کا ارادہ کرلیا۔ اس کے بعد اللہ نے انسان کی تمام ارواح کو اپنے بارے میں باخبر کیا اور ان سے نہ صرف اپنے رب ہونے کا اقرا کروایا بلکہ اپنے تنہا الٰہ ہونے کا شعور بھی اس کی فطرت میں ودیعت کردیا۔ اس سے اگلا مرحلہ وہ ہے جس کا اوپر کی آیات میں ذکر ہے۔ یعنی اللہ نے اپنا یہ منصوبہ فرشتوں اور جنات کے سامنے رکھا کیونکہ یہ دونوں ذی شعور اور صاحب ارادہ مخلوقات تھیں اور ان کا انٹرایکشن انسان سے ہونا تھا۔ جب اللہ نے فرشتوں اور جنات کے سامنے یہ منصوبہ رکھا کہ ایک ذی شعور صاحب اختیار ہستی کو دنیا میں بھیجا جانے والا ہے تو فرشتوں کو صاف نظر آگیا کہ انسان اپنے اختیار کا غلط استعمال کرے گا جس کے نتیجے میں خون خرابا بھی ہوگا۔ چنانچہ انہوں نے اپنا اشکال سامنے رکھ دیا۔لیکن اللہ نے ان کا اشکال اس طرح دور کیا کہ حضرت آدم علیہ السلا م کو ان ہستیوں کے نام یاد کرادئیے جنہوں نے آگے جاکر پیغمبر، ولی، صدیق، شہداء اور صالحین بننا تھا۔ پھر حضرت آدم کو حکم دیا کہ تم فرشتوں کو ان پاکیزہ و مقرب ہستیوں کے نام بتادو۔ چنانچہ جب حضرت آدم نے یہ نام پیش کئے تو فرشتوں نے اپنے اشکال کو واپس لے لیا۔اس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ اختیار کے آپشن کو غلط استعمال کرنے والے بدبخت ہونگے تو دوسری جانب اسی دنیا میں خدا کے آگے جھک جانے والے اور اپنی زندگی خدا کی مرضی کے مطابق گذارنے والے نیک لوگ بھی تو ہونگے۔
اس کے بعد اگلے مرحلے تمام جنات و فرشتوں کو انسان کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ دونوں مخلوقات انسان کی آزادی و اختیار میں کوئی مداخلت نہیں کریں گی۔ جنات میں سے شیطان نے جھکنے سے انکار کردیا جو اس بات کا علان تھا کہ وہ انسان کو آزادی و آسانی کے ساتھ خدا کی رضا حاصل نہیں کرنے دینا چاہتا۔ چنانچہ اللہ نے اسے راندہ درگا ہ کردیا۔
پھر اللہ نے حضرت آدم اور حضرت حوا کو دنیا میں بھیجے جانے سے قبل دنیا کی زندگی میں پیش آنے والی آزمائش سے آگاہ کرنے کے لئے ایک جنت میں بھیجا۔ اس جنت میں انہیں تمام سہولیات دی گئیں بس ایک درخت کا پھل کھانے سے روک دیا۔ شیطان نے اپنا مشن شروع کردیا اور انہیں ورغلایا۔ ابتدا میں تو دونوں انکار کرتے رہے لیکن ایک وقت آیا کہ دونوں شیطان کی باتوں میں آگئے اور اس درخت کا پھل کھالیا۔ اس کے نتیجے میں وہ جنت کی سہولیات سے محروم ہوگئے۔ جب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے اللہ کی جانب رجوع کرلیا۔ اس پر اللہ نے انہیں معاف بھی کردیا۔ اب اس ابتدائی جنت کی تربیت مکمل ہوچکی تھی اس لئے اللہ نے دونوں کو دنیا میں بھیج کر اس امتحان کی ابتدا کردی جس میں ہم سب آزمائے جارہے ہیں۔شیطان ایک عالم و فاضل اور عبادت گذار ہستی ہونے کو باوجود بہک گیا اور محض حسد کی بنا پر سجدے سے انکار کردیا۔ اس سے یہ ثابت ہو ا کہ حسد اتنی بڑی بری بیماری ہے.شیطان اور حضرت آدم علیہ السلام دونوں سے غلطی ہوئی۔ لیکن دونوں کا رد عمل مختلف تھا۔شیطان نے سجدہ سے انکار کیا اور جب اللہ نے اسے اس کی غلطی کی احساس دلایا تو اس نے غلطی تسلیم کرنے اور معافی مانگنے کی بجائے خود اللہ ہی کو قصور وار ٹہرادیا۔ دوسری جانب حضرت آدم و حوا کو جب اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ اکڑنے کی بجائے عجزو انکساری کا پیکر بن گئے۔ چنانچہ اللہ نے شیطان کو مردود بنادیا اور حضرت آدم و حوا کو مقبول۔آج بھی انسان سے یہی رویہ مطلوب ہے کہ جب بھی غلطی ہوجائے تو وہ اکڑنے ، گناہ پر اصرار کرنے اور اس کے لئے تاویلیں تلاش کرنے کی بجائے جھک جائے، سرنڈر کردے اور خدا کی مغفرت کا طلبگار بن جائے۔

موبائل گیم ’پوکی مون گو‘ نے ریلیز ہوتے ہی مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دئیے

ہرچھوٹا بڑا شخص پوکی مون گو کے بخار میں مبتلا، گیم نے ریلیز ہوتے ہی مقبولیت کےجھنڈے گاڑ دئیے۔
لندن: بچوں اور بڑوں کے پسندیدہ کریکٹر پوکی مون کے نئے موبائل گیم ‘’پوکی مون گو‘ نے ریلیز ہوتے ہی مقبولیت کےجھنڈے گاڑ دئیے، ایک وقت میں اتنے زیادہ افرادنے گیم ڈاؤن لوڈ کرنے کی کوشش کی کہ اس کا سرور ہی کریش کرگیا۔
ہر چھوٹا بڑا شخص پوکی مون کے بخارمیں مبتلا نظرآنے لگا ہے جس کی وجہ سے گیم نے اپنی ریلیز کے دو دن بعد ہی کئی ریکارڈ اپنے نام کرلیے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس گیم پر ہر شخص اوسطاً 43 منٹ 22 سیکنڈ صرف کرتا ہے جو کہ انسٹاگرام، اسنیپ چیٹ اور واٹس ایپ صارفین سے زائد ہے۔
اسمارٹ فون صارفین کی ایک بڑی تعداد اس ویڈیو گیم کو ڈاؤن لوڈ کرچکی ہے، جب کہ اچانک لاکھوں افراد کی جانب سے گیم کو ڈاؤن لوڈ کرنے کی کوشش کے باعث اس سرور ہی کریش کرگیا۔
پوکی مون گیم کا شوق پاگل پن کی تمام حدوں کو چھو چکا ہے، امریکا میں دو دوست پوکی مون گیم میں اتنے گم ہوئے کہ وہ نوے فٹ بلند پہاڑی سے نیچے جاگرے۔ بات یہی ختم نہیں ہوئی بلکہ نیوزی لینڈ کے شہری ٹام نے تو اس گیم کے شوق میں اپنی نوکری کو ہی لات دے ماری۔
پوکی مون ایک غیرحقیقی جانور نما مخلوق ہے جن کو پوکی بال میں پکڑا جاتا ہے، پکڑے جانے کے بعد پوکی اپنا درجہ بڑھاتا اور مزید طاقتور ہو جاتا ہے ۔ اس گیم کا آغاز 1996 میں گیم بوائے ایڈوانس کی ویڈیو گیم کے طور پر ہوا تھا اب تک پوکی مون کے 781 تصوراتی اور انفرادی کردارتخلیق کئے جاچکے ہیں۔

کشمیریوں کی شہادت پربھارتی اداکار انوپم کھیر کا اندر کا انتہا پسند ہندو سامنے آگیا

انوپم کھیر کو ٹوئٹر پر مارے جانے والے کشمیری پنڈتوں کی کئی عرصے پرانی تصویر شیئر کرنے پر شدید تنقید کا سامنا ہے، فوٹو:فائل
ممبئی: بھارتی اداکار انوپم کھیر نے مقبوضہ کشمیر میں  بھارتی مظالم پر اپنی ہٹ دھرمی کا اظہار کرتے ہوئے ٹوئٹر پر نامعلوم افراد کے ہاتھوں مارے جانے والے کشمیری پنڈتوں کی تصاویر پوسٹ کیں جس پر انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
انوپم کھیر کی جانب سے یہ ٹویٹ ایسے وقت  سامنے آئی  جب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اپنی انتہاؤں کو چھورہے ہیں اور مقبوضہ وادی میں صرف ایک ہفتے کے دوران تقریباً 40 کشمیری شہید کیے جاچکے ہیں لیکن انوپم کھیر نے بھارتی جنتا پارٹی سے وفاداری اور اپنی متعصبانہ ہندو سوچ کا اظہار کرتے ہوئے نہ صرف تمام بھارتی مظالم نظرانداز کردیئے بلکہ مبینہ طور پر 26 سال پرانی تصاویر اس انداز سے ٹوئٹر پر شیئر کرائیں جیسے یہ حالیہ دنوں ہی کا واقعہ ہو۔
بھارتی اخبار ’’انڈین ایکسپریس‘‘ کے مطابق یہ تصویر ممکنہ طور پر واندھاما سانحے کی ہے جو 1998ء میں ہوا تھا اور اس صورت میں بھی یہ تصویر 18 سال پرانی بنتی ہے۔

قندیل بلوچ کو قتل کرنے والا اُس کا بھائی گرفتار،سی پی او ملتان

قندیل کو نشہ آور دوا دی پھر گلا دبا قتل کیا جب کہ واردات میں اکیلا ہی ملوث ہوں، ملزم کا میڈیا کے سامنے اعترافی بیان، اسکرین گریب/ ایکسپریس نیوز
ملتان: پولیس نے ماڈل قندیل بلوچ کے قتل میں ملوث مرکزی ملزم مقتولہ کے بھائی وسیم کو گرفتار کرلیا جس نے اپنے جرم کا اعتراف بھی کرلیا ہے۔
سی پی او ملتان اظہر اکرم نے پریس کانفرنس کے دوران مقتولہ قندیل بلوچ کے قتل کے مرکزی ملزم اس کے بھائی وسیم کو میڈیا کے سامنے پیش کیا جب کہ اس موقع پر سی پی او ملتان نے بتایا کہ ابتدائی تفتیش میں اب تک یہی پتہ چلا ہے کہ ملزم وسیم نے اکیلے ہی قتل کیا اور یہ واردات غیرت کے نام پر کی گئی، ملزم نے اپنی بہن قندیل بلوچ کی ناک اور منہ دبا کر اسے مارا جس کے بعد وہ اپنے 2 دوستوں کے ہمراہ ڈی جی خان چلا گیا جہاں سے اسے گرفتار کرلیا گیا تاہم ملزم کے دیگر 2 دوستوں کی تلاش ابھی جاری ہے۔
سی پی او ملتان کا کہنا تھا کہ قندیل کی لاش ان کے والدین کے کہنے پر سردخانے میں رکھی گئی ہے تاہم انہوں نے کل ڈی جی خان میں تدفین کا فیصلہ کیا ہے اور ان کے درخواست کرتے ہی لاش حوالے کردی جائے گی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ قندیل کی لاش سے مختلف سیمپلز لیے گئے ہیں جنہیں لاہور بھجوایا جائے گا اور وہاں ان کا جائزہ لیا جائے گا جس کے بعد ہی کچھ پتہ چلے گا کہ کوئی نشہ آور چیز کھلائی گئی یا نہیں۔
سی پی او ملتان نے قندیل بلوچ کے والدین کو حراست میں لیے جانے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ والدین اپنے گھر پر موجود ہیں۔ سی پی او نے بتایا کہ مقتولہ کا موبائل فون بھی برآمد کرلیا گیا ہے جو پولیس کی تحویل میں ہے اور اس کی مدد سے بھی تفتیش میں مزید چیزیں سامے آئیں گی۔
اس موقع پر قندیل بلوچ کے قاتل اس کے بھائی وسیم نے میڈیا کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ قندیل بلوچوں کا نام بدنام کررہی تھی اور یہ مجھ سے برداشت نہیں ہوا جب کہ اس کے مولوی کے مسئلے کی وجہ سے ہمارے مسائل میں اضافہ ہوا۔ ملزم نے کہا کہ قتل میں صرف اکیلا ہی ملوث ہوں اس میں کسی دوست کا ہاتھ نہیں جب قندیل کو میرے اس عمل کے بارے میں کوئی بھی علم نہیں تھا۔ ملزم نے اعتراف کیا کہ قتل سے قبل قندیل کو نشہ آور دوا کھلائی اور رات ساڑھے گیارہ بجے کے درمیان اس کا گلا دبا کر قتل کیا جب کہ اپنے جرم پر بھی کوئی شرمندگی نہیں ہے۔

قندیل بلوچ کو ملتان کے مضافاتی علاقے مظفرگڑھ کے گرین ٹاؤن میں اپنے گھر میں گلہ گھونٹ کر قتل کیا گیا۔ آر پی او ملتان کا کہنا ہے کہ قندیل بلوچ اپنے والد کی عیادت کے لیے ایک ہفتے سے گرین ٹاؤن میں اپنے ماں باپ کے گھر میں ہی موجود تھیں، قندیل بلوچ کے والدین نے اپنا بیان ریکارڈ کرادیا ہے جس کے مطابق قندیل کو ان کے بھائی وسیم نے قتل کیا۔
قندیل بلوچ کے والد نے پولیس کو دیئے گئے بیان میں کہا ہے کہ وہ اپنی بیوی اور بیٹے وسیم سمیت گھر کی چھت پر جب کہ قندیل بلوچ نیچے کمرے میں سوئی تھی۔ صبح 10 بجے تک جب قندیل نہ جاگی تو انہوں نے قندیل کو جگانے کی کوشش کی لیکن پتہ چلا کہ وہ مرچکی ہے۔ واقعے کے بعد اس کا بھائی وسیم غائب ہوگیا جو کہ رات 3 بجے نیچے اترا تھا۔ وسیم جاتے ہوئے قندیل کا موبائل فون اور اس کی پاس موجود پیسے بھی لے گیا۔
پولیس نے قندیل کے والد کی مدعیت میں مقدمہ درج کرلیا ہے، ایف آئی آر کے متن کے مطابق ملزم وسیم ماڈل قندیل بلوچ کے شوبز میں آنے پرنالاں تھا اسی لئے اس نے اپنی بہن کا قتل کیا، اس کے علاوہ قندیل کے دوسرے بھائی اسلم شاہین کو بھی وسیم کی اعانت کرنے کا ملزم ٹھہرایا گیا ہے۔
دوسری جانب نشتر اسپتال ملتان کے ڈاکٹروں نے قندیل بلوچ کے پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ جاری کردی ہے جس کے مطابق قندیل بلوچ کی جمعے اور ہفتے کی درمیانی رات کے کسی پہر موت دم گھٹنے سے ہوئی ہے، قندیل کے جسم پر کسی قسم کی چوٹ کے نشان نہیں ہیں جس کے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی جانب سے بہت کم مزاحمت کی گئی تھی۔  ڈاکٹرز نے قندیل بلوچ کے معدے کے نمونے لے کر فرانزک لیبارٹری لاہوربھجوادیئے ہیں۔

دارچینی کھائیں اورحافظہ بڑھائیں، جدید تحقیق

دار چینی ہماری سمجھ کو بہتر بنا کر ہمیں ہوشیار بناتی ہے، ماہرین:فوٹو:فائل
کیلی فورنیا: دارچینی ایک قدیم خوشبو دارجڑی بوٹی ہے جو مصالحے کے طور پر استعمال ہوتی ہے ویسے تو اس کے کئی فوائد ہیں لیکن ماہرین نے اپنی جدید تحقیق کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس کے استعمال سے نہ صرف یاداشت کو بہتربنایا جاسکتا ہے بلکہ اس سے سیکھنے کی صلاحیت بھی بڑھتی ہے۔
کیلی فورنیا کی “رش یونیورسٹی میڈیکل سینٹر” کے ماہرین نے دار چینی کے فوائد کے حوالے سے ایک تحقیق کی ہے جسے بین الاقوامی طبی جریدے ’’امیون فارماکولوجی ‘‘ نے شائع کیا ہے۔ تحقیق کے مطابق گھریلو ذائقہ دار مسالہ دار چینی کے روزمرہ استعمال سے یاداشت اور سیکھنے کی صلاحیت میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
ماہرین نے اپنی تحقیق میں بتایا کہ ہے کہ دماغ کا وہ حصہ جہاں یاداشت کو منظم اور محفوظ رکھا جاتا ہے ‘ہیپو کیمپس’ کہلاتا ہے، دماغ میں موجود “کیمپ ریسپانس ایلیمنٹ بائنڈنگ” پروٹین جسے مختصراً سی آر ای بی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ پروٹین دماغ میں جس قدر زیادہ ہوتا ہے وہ اسی قدر زیادہ تیزی سے نئی چیزیں سیکھتا ہے۔ اسی طرح دماغ میں ایک اورمرکب گیما امائنو بیوٹرک ایسڈ ٹائپ اے ریسپٹر الفا 5 سب یونٹ نامی پروٹین بھی موجود ہوتا ہے، اس مرکب کو سائنسدان جی اے بی آر اے 5 کا نام دیتے ہیں، یہ مرکب دماغ میں نئی معلومات کو جانے سے روکتا ہے

ماہرین نے اپنے تجربے کے دوران ایک ماہ تک چوہوں کو پسی ہوئی دارچینی کھلائی، ایک ماہ بعد ماہرین نے جب ان چوہوں کے دماغ کا جائزہ لیا تو انہیں پتہ چلا کہ دار چینی ان کے جسم میں دماغی نقصان کے علاج کے لیے ایک دوا کے طور پر استعمال کئے جانے والے کیمیائی  ‘سوڈیم بینزوایٹ’ میں تبدیل ہوگئی۔ ‘سوڈیم بینزوایٹ’ نے ان چوہوں کے دماغ میں سی آر ای بی پروٹین کی مقدار بڑھائی اور جی اے بی آر اے 5 میں کمی کرکے ان کی سطح کو متوازن کردیا۔
تحقیق میں شامل طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بعض لوگ معلومات کو سمجھنے سے قاصرہوتے ہیں جب کہ دوسرے لوگ تیزی سے نتیجے تک پہنچ جاتے ہیں اور دماغ کی اس صلاحیت کو کس طرح بہتر بنایا جا سکتا ہے اس بارے میں بہت کم جانا جاتا ہے لیکن جدید تحقیق کی روشنی میں دیر سے سمجھنے والوں کو دماغی طور پر تیز بنانے کے لیے دار چینی کا استعمال سب سے آسان اور محفوظ طریقہ ہو گا۔

Daily mail urdu تاریخ کی پہلی لو لیٹر لڑکی نے کس کے لئے لکھی۔

ایک بار ضرور پڑھنا...
 ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﺎ ﭘﮩﻼ لو لیٹر
 "ﺍﺑﻦ ﺭﺑﺎﻧﯽ" ﮐﯽ ﮐﺘﺎﺏ
”ﺍﻧﺲ ﯾﺎ ﻧﺴﯿﺎﻥ ﭘﮭﺮ ﺍﻧﺴﺎﻥ“
ﺳﮯ ﻟﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﯾﮏ ﺧﻂ ﺟﺴﮯ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﮨﺮ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﺳﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮩﮧ نکلا-
_____________________________________________

ﺍﺱ ﺩﻥ ﺟﺐ ﮔﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﻟﮍﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﮔﮭﺮﮐﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﭼﮑﺮ ﻟﮕﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺟﺎ ﮐﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﺲ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺖ ﻧﮯ ﺍﺩﮬﺮ ﺁﻧﮯ ﮐﺎ ﻭﻗﺖ ﺩﯾﺎ ﻭﮦ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﺁﯾﺎ ﻧﮩﯿﻦ ﺧﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺳﻦ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﻟﻤﺤﻮﮞ ﺑﻌﺪ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﺳﯽ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻟﮍ ﮐﯽ ﺳﺮ ﺟﮭﮑﺎﺋﮯ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻟﮍﮐﮯ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﻟﻔﺎﻓﮧ ﺩﮮ ﮐﺮﮔﮭﺮ ﺑﮭﺎﮒ ﮔﺌﯽ۔۔ﻟﮍﮐﺎ ﻭﮦ ﻟﻔﺎﻓﮧ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﻣﺴﮑﺮﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺩﻝ ﺳﮯ ﻟﮕﺎﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﭼﻞ ﺩﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﺮﯼ ﻋﺎﺩﺕ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭼﻞ ﺩﯾﺎ ﻭﮦ ﻟﮍﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺩﺭﺧﺖ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺭﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻟﻔﺎﻓﮧ ﮐﻮ ﮐﮭﻮﻻ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺻﻔﺤﮧ ﻧﮑﻼ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺻﻔﺤﮧ ﮐﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﯿﻦ ﺳﮯ ﭼﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﭼﻮﻣﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺭ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﻮ ﺍﻭﺭ ﺣﺮﮐﺎﺕ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﯿﺎﺱ ﺁﺭﺍﺋﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺗﮭﺎ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﻟﮍﮐﮯ ﻧﮯ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﺮ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﮨﻮﺵ ﮨﻮ ﮐﮯ ﮔﺮ ﭘﮍﺍ۔ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺎﮔﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﻭﮦ ﻭﺭﻕ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺗﺠﺴﺲ ﺳﮯ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻟﮕﺎ۔۔ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﺧﻂ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﺍﺱ ﻟﮍﮐﯽ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺱ ﻋﺎﺷﻖ ﮐﻮ ﻟﮑﮭﺎ۔۔ ﺧﻂ ﺍﺳﻼﻡ ﻋﻠﯿﮑﻢ!ﺍﮮ ﻭﮦ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﮔﻮﺩ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻗﺪﻡ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺮﺑﯿﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﺗﮭﻮﮎ ﮈﺍﻻ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﻧﺘﯽ ﮨﻮﮞ ﺗﯿﺮﯼ ﺳﻮﭺ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺟﺲ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﺗﻮ ﺩﻋﻮﯾﺪﺍﺭ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺳﭽﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮑﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﭘﺎﯾﺎ ﺗﮑﻤﯿﻞ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻭﻓﺎ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺱ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﺁﻏﺎﺯ ﻧﻈﺮ ﮐﮯ ﻣﻠﻨﮯ ﺳﮯ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﺟﺴﻢ ﮐﮯ ﻣﻠﻨﮯ ﭘﺮ ﮨﻮ ﮔﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺳﻮﻝ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﯾﮧ ﻧﻈﺮ ﺍﺑﻠﯿﺲ ﮐﮯ ﺗﯿﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﯾﮧ ﺗﯿﺮ ﭼﻠﺘﺎ ﮨﮯ ﻧﺎ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﭘﻮﺭﮮ ﭘﻮﺭﮮ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺑﺪﻻ ﻣﮍﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻟﻔﻆ ﻋﺰﺕ ﺑﮭﯽ ﺳﺮ ﺟﮭﮑﺎ ﮐﺮ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﺴﺘﯽ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﻟﮩﺬﺍ ﺍﺱ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﻮ ﺻﺮﻑ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﻮﮨﻨﮯ ﻧﺒﯽ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﻨﺘﻈﺮ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﻭﺭﻧﮧ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﻧﺎﻧﺎ ﺣﻀﻮﺭ ﷺ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﮔﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﻣﻨﺪﮦ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺷﺮﻡ ﮐﮯ ﻣﺎﺭﮮ ﮈﻭﺏ ﻣﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﺗﺮﺑﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﯽ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ۔۔ﺗﻮ ﺳﻦ ﺍﮮ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺷﮩﺰﺍﺩﮦ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺣﻮﺭ ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﯿﺪ ﺯﺍﺩﯼ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﺗﻌﻠﻖ ﺍﻣﺎﮞ ﻓﺎﻃﻤﮧ ؓ ﮐﮯ ﻗﺒﯿﻠﮧ ﺳﮯ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﻮ ﺗﻤﺎﻡ ﺟﻨﺘﯽ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﮨﻮﮞ ﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﻋﺎ ﻣﺎﻧﮕﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺧﺎﺩﻡ ﺑﻨﺎﻧﺎ ﺗﻮ ﺗﻮ ﺧﻮﺩ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮ ﺍﮔﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﯼ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ ﮨﻮ ﺟﺎﺅﮞ ﺗﻮ ﺧﺎﺩﻣﯿﺖ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﺟﻨﺖ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﻧﮯ ﺩﯾﺎﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔۔ﺭﮨﺎ ﺳﻮﺍﻝ ﺗﻮ ﻧﮯ ﺟﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﻞ ﺷﺎﻡ ﺑﺎﻍ ﮐﮯ ﺍﺱ ﭘﯿﮍ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﻣﻠﻨﮯ ﮐﻮ ﺑﻼﯾﺎ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﻭﮨﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﺁﺟﺎﺗﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻭﻋﺪﮦ ﻟﻮﮞ ﮐﮧ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮩﻦ ﮔﮉﯼ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﻮ۔۔ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺗﯿﺮﯼ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺷﺮﯾﻒ ﻋﻮﺭﺕ ﺗﯿﺮﯼ ﮔﮉﯼ ﺑﮩﻦ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺷﺮﯾﻒ ﻋﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﺍﺳﻄﺮﺡ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﻏﻠﻂ ﻓﮩﻤﯽ ﺩﻭﺭ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﮔﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺧﺒﺮ ﭘﮭﯿﻠﮯ ﮔﯽ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮩﻦ ﮐﻮ ﺷﺮﯾﻒ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﮯ ﮔﺎ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺁﺋﻨﺪﮦ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺍﺣﺴﺎﻥ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ ﮐﮧ ﯾﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮔﻨﺎ ﺳﮯ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺭﮨﯿﮟ ﮔﮯ ﯾﺎ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮨﺮ ﻃﺮﺡ ﮐﯽ ﺁﺳﺎﻧﯿﺎ ﮞ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﭘﮩﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮩﻦ ﮐﻮ ﮐﺴﯽ ﺑﺎﻍ ﮐﮯ ﭘﯿﮍ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﻣﻠﻨﮯ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﻭﮐﮯ ﮔﺎﭘﮭﺮ ﺟﺐ ﯾﮧ ﮔﻨﺎﮦ ﺍﺗﻨﺎ ﻋﺎﻡ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﻟﻔﻆ ﻏﯿﺮﺕ ﮐﯽ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﺑﮭﯽ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮫ ﺁ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮩﻦ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﻧﮕﺎﮦ ﻧﮧ ﺍﭨﮭﻨﮯ ﺩﯾﻨﺎ ﻏﯿﺮﺕ ﻧﮩﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺑﮩﻦ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮍﮬﻨﮯ ﺳﮯ ﺭﻭﮐﻨﮯ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻏﯿﺮﺕ ﮨﮯ۔۔ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻓﻠﻢ ﯾﺎ ﮈﺍﺭﺍﻣﮯ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺗﻮ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺧﻂ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﺳﯽ ﻟﺒﺎﺱ ﻣﯿﮟ ﺗﺠﮭﮯ ﻣﻠﻨﮯ ﭼﻠﯽ ﺁﺗﯽ ﮨﻮﮞ ﻣﮕﺮ ﺗﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺩﻝ ﮐﯽ ﮨﻮﺱ ﻧﮯ ﺟﺐ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﺪﻥ ﻧﻮﭼﺎ ﺗﻮ ﺗﻮ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﻧﮧ ﮨﻮﻧﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮐﺎ ﻇﺎﮨﺮﯼ ﺣﺴﻦ ﻭ ﻟﻄﻒ ﺳﮯ ﻟﺒﺮﯾﺰ ﻣﻮﻗﻊ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﮨﺮ ﻣﺮﺩ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮫ ﺗﻮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﻧﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺧﺪﺍ ﮔﻮﺍ ﮦ ﮨﮯ ﻭﮦ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﮐﺎ ﺑﮩﺖ ﭘﮑﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺣﻖ ﺑﻨﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻋﯿﺶ ﮐﮯ ﮐﭽﮫ ﻟﻤﺤﮯ ﮔﺰﺍﺭﮮ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺟﺎﻧﮯ ﻋﺸﻖ ﮐﺎ ﻟﻄﻒ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﮕﻠﺶ ﺟﻤﻠﮧ ﺑﻮﻝ ﮐﺮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﯾﺴﯽ ﺍﻣﯿﺪﯾﮟ ﻭﺍﺑﺴﺘﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻋﻮﺭﺕ ﺑﮭﯽ ﺧﻮﺩ ﭘﺮﺷﺮﻣﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﺩ ﮐﻮ ﺟﻨﻢ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﻮﮐﮫ ﭘﺮ ﻟﻌﻨﺖ ﺑﮭﯿﺠﮯ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﻧﮯ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﮐﻮ ﺟﻨﻢ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﺮﺑﯿﺖ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺩﮐﮭﯽ ﺍﻧﺴﺎﻧﯿﺖ ﮐﻮ ﻇﻠﻢ ﻭ ﺳﺘﻢ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﻻ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﮯ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﻮ ﺟﻨﻢ ﺩﯾﺎ ﺟﻮ ﺍﻧﺴﺎﻧﯿﺖ ﮨﯽ ﺳﮯ ﺧﺎﻟﯽ ﮨﮯ۔۔۔۔ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﺧﻮﺑﺮﻭ ﻋﺎﺷﻖ ﺗﻮ ﺟﻮ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺱ ﮐﯽ ﺑﻮ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺗﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﺗﺠﮭﮯ ﻭﮦ ﻗﺮﺁﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮍﮬﺎﯾﺎ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﻣﻦ ﮐﯽ ﺣﯿﺎ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮨﮯ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﺮﺩ ﻣﻮﻣﻦ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﻮﺭ ﷺ ﮐﺎ ﻭﮦ ﺍﻣﺘﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﺩﺭﺟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﺭﺟﮧ ﺣﯿﺎ ﮐﺎ ﭘﺎﯾﺎ ﮨﻮ۔۔۔ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺗﺠﮭﮯ ﻏﺼﮧ ﺁﯾﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﺑﮩﻦ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﮨﺮ ﺑﺎ ﺣﯿﺎ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﯾﮧ ﮐﯿﻔﯿﺖ ﮨﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﻮﻧﺎ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮩﻦ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﺷﺮﯾﻒ ﻧﮧ ﺳﻤﺠﮭﻨﺎ ﯾﮧ ﮔﻨﺪﯼ ﺳﻮﭺ ﺍﻭﺭ ﺗﺮﺑﯿﺖ ﮐﺎ ﻧﺘﯿﺠﮧ ﮨﮯ۔۔ﺗﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ؓ ﮐﺎ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﻣﺎﻧﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮯ ﺗﯿﺮﺍ ﺗﺬﮐﺮﮦ ﺍﺱ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﻧﮯ ﻣﻮﻻﮮ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮍﮬﺎ”ﺍﭘﻨﯽ ﺳﻮﭺ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﻗﻄﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺻﺎﻑ ﺭﮐﮭﻮ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺟﺲ ﻃﺮﺽ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﻗﻄﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺩﺭﯾﺎ ﺑﻨﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺳﻮﭺ ﺳﮯ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺑﻨﺘﺎ ﮨﮯ“۔۔۔ﮐﯿﺎ ﺗﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺟﻮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺩﮐﮭﻼﻭﮮ ﮐﺎ ﮨﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ؓ ﮐﺎ ﺳﭽﺎ ﭘﯿﺎﺭﺗﯿﺮﮮ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ۔۔۔ﺍﻭﺭ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ﻭﯾﺴﺎ ﺑﮭﺮﻭ ﮔﮯ ﻭﺍﻻ ﻗﻮﻝ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮐﺴﯽ ﻋﺎﻗﻞ ﮐﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎﻡ ﮐﮯ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﺑﮩﻦ ﮐﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﻋﺰﺕ ﮐﺎ ﮨﻮﻧﺎ ﺗﯿﺮﮮ ﻟﯿﮯ ﻋﺠﯿﺐ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﮔﺎ۔۔۔۔ ﻣﯿﮟ ﺗﺠﮭﮯ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺑﺲ ﺍﺗﻨﺎ ﺑﺘﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺗﯿﺮﯼ ﺑﮩﻦ ﮔﮉﯼ ﺟﻮ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺩﻭﺳﺖ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﺗﺠﮫ ﺟﯿﺴﮯ ﺑﮯ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﮦ ﺑﮭﭩﮑﮯ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻧﮯ ﺧﻂ ﻟﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﭘﯿﮍ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺑﻼﯾﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﻋﯿﻦ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﺟﺐ ﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﺠﮭﮯ ﺧﻂ ﺩﮮ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ ﺗﯿﺮﯼ ﺑﮩﻦ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﮯ ﺧﻂ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﮮ ﮔﯽ ﺍﻧﮩﯽ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺷﺮﺍﺋﻂ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﺠﮭﮯ ﻟﮑﮫ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ ﺍﮔﺮ ﺗﺠﮭﮯ ﯾﮧ ﺳﺐ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺟﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﺎ ﮐﮧ ﮔﮉﯼ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺩﮮ ﺩﮮ ﺟﻮ ﺗﻮ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻟﮍﮐﮯ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﯾﮧ ﮨﯽ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮔﮉﯼ ﺳﮯ ﻟﮑﮭﻮﺍ ﮐﮯ ﺩﺋﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮧ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻟﮍﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺭﺍﮦ ﺭﺍﺳﺖ ﭘﺮ ﻧﮧ ﺁﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﯼ ﺑﮩﻦ ﺑﮭﯽ ﮔﻤﺮﺍﮦ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﮨﻮﺗﯽ۔۔ﺍﺏ ﺁﺧﺮﯼ ﺩﻭ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺟﻦ ﮐﺎ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﻭﻋﺪﮦ ﮐﺮﻧﺎ۔۔۔ﺗﻮﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﺑﺮﯼ ﻧﻈﺮ ﮈﺍﻟﯽ ﺗﻮ ﺗﯿﺮﮮ ﻟﯿﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﯾﮧ ﻣﮑﺎﻓﺎﺕ ﻋﻤﻞ ﻭﺍﻻ ﺳﺒﻖ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﯿﺎ۔۔ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﺑﮩﻦ ﮐﻮ ﺑﺮﯼ ﺭﺍﮦ ﺳﮯ ﺑﭽﺎﯾﺎ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻋﻄﺎﮐﺮﺩﮦ ﮨﻤﺖ ﺳﮯ ﺗﯿﺮﮮ ﮔﻤﺮﺍﮨﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻧﺎﺭﺍﺿﮕﯽ ﻭﺍﻟﮯ ﺟﺎﻝ ﺳﮯ ﺑﭻ ﮔﺌﯽ ﮨﻮﮞ۔۔ﺍﺏ ﺍﮔﺮ ﻣﯿﺮﺍ ﺗﯿﺮﯼ ﺑﮩﻦ ﭘﺮ ﺍﺣﺴﺎﻥ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﮭﻮﻝ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﮔﻨﺎﮦ ﮐﯽ ﺿﺪ ﭘﺮ ﻗﺎﺋﻢ ﺭﮨﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺩﻓﻌﮧ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺗﺠﮭﮯ ﭼﺎﺭ ﺑﮩﻨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﻣﺎﮞ ﺩﯼ ﮨﮯ۔۔۔۔ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﯽ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﺠﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﮔﻤﺮﺍﮨﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﮯ ﮔﻨﺎ ﮦ ﺳﮯ ﺑﭽﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﺗﻮﺑﮧ ﮐﺮ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ؓ ﺟﻦ ﺳﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﮯ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺳﭽﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﮐﮭﻼﻭﮮ ﺳﮯ ﭘﺎﮎ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮓ ﺟﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺟﯿﺴﯽ ﻋﻈﯿﻢ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﮎ ﮨﺴﺘﯽ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﻧﮧ ﻻ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺟﺲ ﺣﻮﺍ ﻧﮯ ﺁﺩﻡ ﮐﻮ ﺟﻨﺖ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﻮﺍﯾﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺗﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﮐﺎ ﻧﮧ ﭼﮭﻮﮌﮮ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﯼ ﻭﮦ ﭘﮕﮍﯼ ﺟﺲ ﭘﺮ ﺗﺠﮭﮯ ﻣﺎﻥ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺧﺎﮎ ﮐﺎ ﺣﺼﮧ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﺟﻨﻢ ﻟﯿﻨﺎ ﮔﻨﺎﮦ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ۔۔ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﻘﯿﻘﯽ ﻏﯿﺮﺕ ﻣﻨﺪ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﻮ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺘﯽ ﻣﮕﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﺠﮭﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﺑﮩﻦ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺗﯿﺮﮮ ﻟﯿﮯ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ﻭﯾﺴﺎ ﺑﮭﺮﻭ ﮔﮯ ﺳﻤﺠﮭﻨﺎ ﻣﺸﮑﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺎ۔۔۔ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮩﻦ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻟﮍﮐﮯ ﮐﺎ ﻣﺖ ﭘﻮﭼﮭﻨﺎ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮧ ﮨﻮ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺍﯾﺴﯽ ﺿﺪ ﮐﺮﮮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺍﭼﮭﺎ ﺣﻞ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺑﺎﮔﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﺳﭽﯽ ﻣﻌﺎﻓﯽ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﺠﮭﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺳﯿﺪ ﺯﺍﺩﯼ ﺑﻨﺪﯼ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﻏﻠﻂ ﺳﻮﭺ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﻣﻌﺎﻓﯽ ﻣﺎﻧﮓ ﻟﯿﻨﺎ۔۔۔ﯾﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﭘﮩﻼ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺎ ﺧﻂ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﺍﻋﺘﺮﺍﻑ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ ﮐﮩﻤﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺣﺒﯿﺐ ﷺ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ ﺍﮔﺮ ﺟﺲ ﭼﯿﺰ ﮐﯽ ﺗﻮ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﯾﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﻧﺒﯽ ﭘﺎﮎ ﷺ ﮐﯽ ﺳﯿﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺍﯾﺴﺎ ﻋﻤﻞ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺜﺎﻝ ﺍﻣﺎﮞ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﺘﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭﻣﯿﺮﯼ ﺍﻭﺭﺗﯿﺮﯼ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﺍﯾﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﺰﺍﺭ ﻣﺜﺎﻟﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﻮ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﮨﺮﮔﺰ ﺍﺱ ﺩﻋﻮﺕ ﮐﺎ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﻧﮧ ﭘﺎﺗﺎ۔۔ﺍﻟﻠﮧ ﺗﯿﺮﯼ ﺑﮩﻨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﻋﺰﺕ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ۔۔ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ۔۔ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ۔۔ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ،ﻭﺍﻟﺴﻼﻡ۔۔۔۔ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺑﻨﺪﯼ ﺣﻀﻮﺭ ﮐﯽ ﺍﻣﺘﯽ ﺍﻣﺖ ﻣﺤﻤﺪﯼ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ۔۔

Daily mail Urdu سلطان بادشاہ مراد نے ایک رت بڑی کھٹن اور تکلیف محسوس کیا۔ دلچسپ کہانی


ﺳﻠﻄﺎﻥ بادشاہ ﻣﺮﺍﺩ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺭﺍﺕ ﺑﮍﯼ ﮔﮭﭩﻦ ﺍﻭﺭ ﺗﮑﻠﯿﻒ محسوس کر رہا تھا ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﻧﮧ ﺟﺎﻥ ﺳﮑﺎ ،

ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﯿﮑﻮﺭﭨﯽ ﺍﻧﭽﺎﺭﺝ ﮐﻮ ﺑﻼﯾﺎ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮯﭼﯿﻨﯽ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﺩﯼ انچارج کو بھی کچھ سمجھ نہ آئ .

ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ایک ﻋﺎﺩﺕ ﺗﮭﯽ ، ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﮭﯿﺲ ﺑﺪﻝ ﮐﺮ ﻋﻮﺍﻡ ﮐﯽ ﺧﻔﯿﮧ ﺧﺒﺮﮔﯿﺮﯼ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ .ﮐﮩﺎ ﭼﻠﻮ ﭼﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ
ﻭﻗﺖ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺍﺭﺗﮯ ﮬﯿﮟ شائد بے چینی کچھ کم ہو ،

 ﺷﮩﺮ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﭘﺮ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ ﮔﺮﺍﭘﮍﺍ ﮬﮯ ، ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮬﻼ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﻣﺮﺩﮦ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺗﮭﺎ ، ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﺰﺭﮮ ﺟﺎﺭﮬﮯ ﺗﮭﮯ ، ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯼ ﺍﺩﮬﺮ ﺁﺅ ﺑﮭﺌﯽ ﻟﻮﮒ ﺟﻤﻊ ﮬﻮﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﻮ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﻧﮧ ﺳﮑﮯ ، ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮬﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺁﺩﻣﯽ ﻣﺮﺍ ﮬﻮﺍ ﮬﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﮐﻮﻥ ﮬﮯ ﯾﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮩﺎﮞ ﮬﯿﮟ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﯾﮧ ﺯﻧﺪﯾﻖ ﺷﺨﺺ ﮬﮯ ﺑﮍﺍ
ﺷﺮﺍﺑﯽ ﺍﻭﺭ ﺯﺍﻧﯽ ﺁﺩﻣﯽ ﺗﮭﺎ ، ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﺍﻣﺖ ﻣﺤﻤﺪﯾﮧ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮬﮯ ﭼﻠﻮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﭨﮭﺎﺅ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻟﮯ ﭼﻠﻮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﯿﺖ ﮔﮭﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﯼ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﮐﯽ ﻻﺵ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺗﻮ ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﻟﻮﮒ ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺳﯿﮑﻮﺭﭨﯽ ﺍﻧﭽﺎﺭﺝ ﻭﮨﯿﮟ ﮐﮭﮍﮮ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﺎ
ﺭﻭﻧﺎ ﺳﻨﺘﮯ ﺭﮬﮯ ﻭﮦ ﮐﮩﮧ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ ، ﻣﯿﮟ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﺩﯾﺘﯽ ﮬﻮﮞ ﺑﯿﺸﮏ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﮐﺎ ﻭﻟﯽ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﮏ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮬﮯ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺮﺍﺩ ﺑﮍﺍ ﻣﺘﻌﺠﺐ ﮬﻮﺍ ﯾﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﻭﻟﯽ ﮬﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﻟﻮﮒ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﯾﮧ ﯾﮧ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﺭﮬﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﯿﺖ ﮐﻮ ﮬﺎﺗﮫ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﺗﯿﺎﺭ ﻧﮧ ﺗﮭﮯ ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﭘﺮ ﯾﮩﯽ ﺗﻮﻗﻊ ﺗﮭﯽ

 ﺍﺻﻞ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﮬﺮ ﺭﻭﺯ ﺷﺮﺍﺏ ﺧﺎﻧﮧ ﺟﺎﺗﺎ ﺟﺘﻨﯽ ﮬﻮ
ﺳﮑﮯ ﺷﺮﺍﺏ ﺧﺮﯾﺪﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮ ﻻ ﮐﺮ ﮔﮍﮬﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺎ ﺩﯾﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﺘﺎ ﮐﮧ ﭼﻠﻮ ﮐﭽﮫ ﺗﻮ ﮔﻨﺎﮬﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﻮﺟﮫ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﮬﻠﮑﺎ
ﮬﻮﺍ ، ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﻃﻮﺍﺋﻒ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﺎﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺭﺍﺕ ﮐﯽ ﺍﺟﺮﺕ ﺩﮮ ﺩﯾﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﮐﮭﺘﺎ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﻟﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﻧﮧ ﺁﺋﮯ ، ﮔﮭﺮ ﺁﮐﺮ ﮐﮭﺘﺎ ﺍﻟﺤﻤﺪﻟﻠﮧ ﺁﺝ ﺍﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﻨﺎﮬﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﺑﻮﺟﮫ ﮬﻠﮑﺎ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮬﮯ ، ﻟﻮﮒ ﺍﺱ
ﮐﻮ ﺷﺮﺍﺏ ﺧﺎﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﻃﻮﺍﺋﻒ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﺁﺗﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ ، ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﮐﮩﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮫ ﺟﺲ ﺩﻥ ﺗﻮ ﻣﺮ ﮔﯿﺎ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ
ﻧﮧ ﺗﺠﮭﮯ ﻏﺴﻞ ﺩﯾﻨﺎ ﮨﮯ ﻧﮧ ﺗﯿﺮﯼ ﻧﻤﺎﺯ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﭘﮍﮬﻨﯽ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺗﺠﮭﮯ ﺩﻓﻨﺎﻧﺎ ﮬﮯ ، ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﺩﯾﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﮭﺘﺎ ﮐﮧ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﻣﺖ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﮔﯽ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﻭﻗﺖ ﮐﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ، ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻟﯿﺎﺀ ﭘﮍﮬﯿﮟ ﮔﮯ ،

ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺭﻭ ﭘﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﻣﯿﮟ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺮﺍﺩ ﮬﻮﮞ ، ﮐﻞ ﮬﻢ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻏﺴﻞ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ ﮬﻢ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﭘﮍﮬﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﮬﻢ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺪﻓﯿﻦ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ دنیا نے دیکھا کہ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻋﻠﻤﺎﺀ ، ﺍﻭﻟﯿﺎﺀ ﺍﻭﺭ ﮐﺜﯿﺮ ﻋﻮﺍﻡ ﻧﮯ ﭘﮍﮬﺎ.

Daily mail Urdu تاریخ کی اولین توہین رسالت


تاریخ کی اولین توہین رسالت 
سورہ حجر آیت : ٩٥ انا کفیناک المستہزئین الذین یجعلون مع اللہ الہ آخرا 
ترجمہ : “ بال شبہ وہ لوگ جو ہنسی کرنے والے ہیں ، جو اللہ کے ستھ دوسرا معبود تجویز کرتے ہیں ، ان کی جانب سے ہم آپ کے لیے کافی ہیں ، سو عن قریب وہ جان لیں گے ۔“
یہ استہزاء کرنے والے پانچ افراد تھے ، ولید بن مغیرہ ، عاصم بن وائل ، اسود بن عبدالمطلب اسود بن عبد یغوث ، حارث بن قیس ۔ اللہ تعالی بمعرفت ان پانچوں کی عبرت ناک سزا دی ۔ 
ایک مرتبہ یہ پنچوں طواف کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ حضرت جبریل بھی وہاں تھے ، جب آپ کے پاس سے ولید کا گذر ہوا تو حضرت جبریل علیہ السلام نے پوچھا یہ کیسا آدمی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا : یہ برا آدمی ہے ، جبریل علیہ السلام نے فرمایا اس کی جانب سے میں آپ کے لیے کافی ہو گیا ، پھر حضرت جبریل نے اس کی پنڈلی کی طرف اشارہ کیا ، ولید اس وقت یمانی چادر اوڑھے تھا، اس درمیان بنی خزاعہ کے ایک آدمی کے تیروں کے پر ولید کے پاؤں میں چبھ گئے، اس نے تکبر کی وجہ سے جھک کر اس کو نکالنا پسند نہ کیا، نتیجتا زخم ہو گیا جو اتنا بڑھا کہ اس میں مر گیا ۔
پھر عاصم گذرا ، جب آپ کے پاس سے گذر ہوا تو حضرت جبریل علیہ السلام نے پوچھا یہ کیسا آدمی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا : یہ برا آدمی ہے ، جبریل علیہ السلام نے فرمایا اس کی جانب سے میں آپ کے لیے کافی ہو گیا ۔ حضرت جبریل نے اس کے تلووں کی اشارہ فرمایا ، چنانچہ اس کے بعد ایک مرتبہ اپنے بچوں کے ساتھ تفریح کرنے نکلا ، ایک وادی میں ایک کانٹا اس کے پاون میں چبھ گیا، پاؤں پھول کر اونٹ کی گردن کی طرح ہو گیا، اور اسی میں وہ مر گیا ، پھر یہاں سے اسود بن عبدالمطلب کا گذر ہوا، جب آپ کے پاس سے گذر ہوا تو حضرت جبریل علیہ السلام نے پوچھا یہ کیسا آدمی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا : یہ برا آدمی ہے ، جبریل علیہ السلام نے فرمایا اس کی جانب سے میں آپ کے لیے کافی ہو گیا ۔ حضرت جبریل نے اس کی آنکھوں کی طرف اشارہ کیا ، چنانچہ پھر کبھی وہ اندھا ہو گیا اور دیوار میں سر مارتا ہوا یہ کہتا ہوا مر گیا کہ مجھے محمد کے خدانے قتل کر دیا ، پھر اسود بن عبد یغوث کا گذر ہوا ، جب آپ کے پاس سے اس کا گذر ہوا تو حضرت جبریل علیہ السلام نے پوچھا یہ کیسا آدمی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا : یہ برا آدمی ہے ،حالاں کہ میرے ماموں کا لڑکا ہے ، جبریل علیہ السلام نے فرمایا اس کی جانب سے میں آپ کے لیے کافی ہو گیا ۔ چنانچہ اس کے پیٹ کی طرف اشارہ کیا ، اور وہ استسقاء کے مرض میں مر گیا ۔ اس کے بعد حارث بن قیس کا گذر ہوا، جب آپ کے پاس سے اس کا گذر ہوا تو حضرت جبریل علیہ السلام نے پوچھا یہ کیسا آدمی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا : یہ برا آدمی ہے ، جبریل علیہ السلام نے فرمایا اس کی جانب سے میں آپ کے لیے کافی ہو گیا ۔ حضرت جبریل نے اس کے سر کی طرف اشارہ کیا ، اس کے بعد اس کی ناک سے مسلسل پیپ نکلنے لگی، اور اسی میں مر گیا

Daily mail Urdu ماشکیل میں گسٹرو وباء پھیلنے سے ایک شخص جان بحق اورنو افراد متا ثر ہوگئے


ماشکیل ( ڈیلی میل اردو  )ماشکیل میں گسٹرو وباء پھیلنے سے ایک شخص جان بحق اورنو افراد متا ثر ہوگئے ما شکیل یو سی چیرمین سودگان امان اللہ ریکی کے مطابق گزشتہ روز نیال خان ولد خد ا ئے داد عمر چالیس سال سکنہ دازی ماشکیل یو سی سوتگان ماشکیل گیسٹرو کی وباء پھیلنے سے جان بحق ہوئے اور نو افراد متاثر ہوئے انھوں نے کہا موجودڈسپینسر نے علاج تو شروع کردی ہیں مگر یہ علاج کافی نہیں ہیں اور دوسرے متاثر مریضوں کا جان خطرئے میں ہیں
ماشکیل میں اسپتال نہ ہونے کے برابر ہے۔
ماشکیل عوام نے صوبائی حکومت سے اپیل کی ہے کہ جلد از جلد ڈاکٹروں پر مشتمل ایک ٹیم ماشکیل بیج دیا جائے  تاکہ اس مرض پر قابو پالے۔
اگر ٹیم نہ بھیجی گئی تو ایک ایک کر کے یہ جان لیوا مرض پورا ماشکیل کو تباہ کرے گا۔

دوسری جنگِ عظیم کی تصاویریں Dailymailurdu


دنیا کی سب سے زیادہ قابلِ تعریف شخصیات: سروے رپورٹ ڈیلی میل اردو


پاکستانی عام جائزہ رپورٹ کے مطابق، 10 قابل تعریف شخصیات کی فہرست میں سابق پاکستانی کرکٹر اور سیاستدان عمران خان کو سب سے زیادہ پسندیدہ ہستی قرار دیا گیا ہے، جن کے بعد بل گیٹس کو عوامی حلقوں میں سب سے زیادہ سراہا گیا ہے

ایک عالمی سروے رپورٹ میں دنیا کی سب سے زیادہ سراہے جانے والی شخصیات کے ناموں کا اعلان کیا گیا ہے، جس کے مطابق ، مائیکروسافٹ کے بانی اور انسان دوست شخصیت بل گیٹس کو دنیا کی سب سے زیادہ قابل تعریف ہستی قرار دیا گیا ہے۔
دنیا بھر میں سب سے زیادہ سراہے جانے والی دوسری شخصیت کا اعزاز امریکی صدر براک اوباما کو حاصل ہوا ہے، ان کے بعد تیسری من پسند شخصیت کے طور پر روسی صدر ولا دیمیر پوٹن کو چنا گیا ہے۔
برطانوی اخبار ’ٹائمز آف لندن‘ کی رپورٹ کے مطابق، انٹرنشنل سروے کمپنی 'یو گو' نے آبادی کے لحاظ سےدنیا کے 13 بڑے ممالک سے تعلق رکھنے والے تقریبا 14,000 ہزار افراد کی رائے پر مشتمل اعداد و شمار بذریعہ انٹرنیٹ اور ٹیلی فون جمع کئے۔
سروے کے لیے برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس، امریکہ، پاکستان، چین، ہندوستان، انڈونیشیا، آسٹریلیا، نائجریا، مصر اور برازیل کے عوام سے دو سوالات پوچھے گئے کہ،’ آپ کی نظر میں دنیا کی سب سے مقبول شخصیت کون ہے؟‘
دوسرے سوال میں پوچھا گیا کہ، ’ذاتی طور پر آپ کس شخصیت کو قابل تعریف سمجھتے ہیں؟‘
رائے عامہ کے جائزے کے مطابق، دنیا بھر سے 30 مقبول قابل تعریف شخصیات کا انتخاب کیا گیا۔ ’یو گو‘ کی جانب سے سروے کا حصہ بننے والے ہر ملک کی 10 من پسند ہستیوں کے ناموں پر مشتمل فہرستیں بھی جاری کی گئی ہیں۔
دنیا بھر میں فلاحی تنظیموں اور سائنسی تحقیق کے لیے دل کھول کر عطیہ دینے والی شخصیت بل گیٹس کو سروے میں حصہ لینے والے تمام ممالک میں عوامی پسندیدگی کے لحاظ سے نمایاں مقام حاصل ہوا۔ بلکہ، چینی عوام نے انھیں اپنی پہلی پسندیدہ شخصیت قرار دیا۔
امریکی صدر براک اوباما اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو عالمی سروے کے نتیجے میں دنیا کی دوسری اور تیسری ہر دلعزیز شخصیات کے طور پر چنا گیا۔ اُن کے علاوہ، دنیا بھرمیں پوپ فرانسس کو چوتھے نمبر پر سراہے جانے والی شخصیت قرار دیا گیا ہے۔
کھیلوں کی دنیا سے انڈین کرکٹر سچن ٹنڈو لکر کو قابل تعریف شخصیات کی فہرست میں پانچویں جگہ ملی ہے ان کے علاوہ بولی وڈ آئیکون، امیتابھ بچن کو دنیا کی سب سے زیادہ پسندیدہ شخصیت کے طور پر نواں نمبرحاصل ہوا۔
عالمی قابل تعریف شخصیت کے طور پر پاکستانی سابق کرکٹر اور سیاستدان عمران خان کو 12 واں نمبر پر منتخب کیا گیا ہے۔
کھیلوں کی دنیا سے پسندیدگی کے اعتبار سے سچن ٹنڈولکر کے علاوہ ارجنٹینا سے تعلق رکھنے والے فٹ بالر لیونل مسی کا نمبر 15 واں ہے۔ باسکٹ بال کھلاڑی مائیکل جارڈن 21 ویں اور پرتگالی فٹ بالر کرسٹینو رونالڈو اس فہرست میں 22 ویں نمبر پر شامل کئے گئے ہیں۔
عالمی سطح پر چاہے جانے والی ہستیوں کی فہرست میں صرف 6 خواتین جگہ حاصل کر سکی ہیں، جن میں ملکہ الزیبیتھ 17 ویں، امریکی ٹاک شو کی میزبان اوپرا ونفرے20 ویں، جرمن چانسلر انجیلا مرخیل 26 ویں اور سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن 27 ویں نمبر پر پسندیدہ شخصیات بتائی گئی ہیں۔
برطانوی سروے رپورٹ کے مطابق، عوام کی جانب سے برطانیہ کی سب سے زیادہ قابل تعریف ہستی ملکہ برطانیہ کو قرار دیا گیا ہے، جِن کے بعد عوامی پسندیدگی کے لحاظ سے براک اوباما، پوپ فرانسس، سر رچرڈ برانسن، دالائی لامہ، بل گیٹس، شہزادہ ولیم اور ڈیوڈ بیکھم کے ناموں کو شامل کیا گیا ہے ۔
پاکستانی پول کے نتیجے کے مطابق، 10 قابل تعریف شخصیات کی فہرست میں سابق کرکٹر اور سیاستدان عمران خان کو سب سے زیادہ پسندیدہ ہستی قرار دیا گیا ہے، جن کے بعد، بل گیٹس کو عوامی حلقوں میں سب سے زیادہ سراہا گیا ہے۔
سماجی کارکن عبدالستار ایدھی اور سابق پاکستانی صدر پرویز مشرف کو پاکستانی عوام نے پسندیدہ شخصیات کی فہرست میں میں تیسرے اور چوتھے نمبر پر پسند کیا ہے۔ اُن کے علاوہ، اس فہرست میں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف اور تعلیمی مہم سے وابستہ عالمی شہرت یافتہ ملالہ یوسفزئی کو پاکستان کی سب سے زیادہ سراہی جانے والی شخصیات کے اعتبار سے ساتویں اور آٹھویں نمبر پر منتخب کیا گیا ہے

دنیا کے امیر ترین کھلاڑی( ریپوٹ ڈیلی میل اردو)

میگزین کی جانب سے جاری ہونے والی امیر ترین کھلاڑیوں کی فہرست میں مہندر سنگھ دھونی واحد بھارتی کھلاڑی ہیں۔
میگزین کے مطابق مہندر سنگھ دھونی نے گذشتہ 12 ماہ کے دوران تین کروڑ دس لاکھ ڈالر کمائے ہیں۔
اس فہرست میں باکسر فلوئد مے ویدر 30 کروڑ ڈالر کے ساتھ سرفہرست ہیں جبکہ ان کے حریف مینی پکوئیو 16 کروڑ ڈالر سالانہ آمدن کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔
تیسرے نمبر پر پرتگال اور رئیل میڈرڈ کےسٹرائیکر کرسٹیانو رونالڈو ہیں، ان کی سالانہ آمدن سات کروڑ 96 لاکھ ڈالر ہے۔
واضح رہے کہ مہندر سنگھ دھونی نے سنہ 2014 کے اواخر میں ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔
مہندر سنگھ دھونی بھارتی ٹیسٹ کرکٹ کے کامیاب ترین کپتان ہیں اور ملک بھر میں ان کے کروڑوں کی تعداد میں مداح ہیں۔
انھوں نے 60 ٹیسٹ میچوں کی کپتانی کرتے ہوئے 27 میں کامیابی حاصل کی، 18 میں انھیں شکست کا سامنا ہوا اور 15 بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوئے۔ ان کی کامیابی کا تناسب 45 فیصد رہا ہے۔
رواں سال آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں منعقدہ کرکٹ عالمی کپ میں انھوں نے اپنی ٹیم کو سیمی فائنل تک پہنچایا جہاں انھیں آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست ہوئی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کی مقبولیت انھیں مختلف سطحوں پر وہ ’برانڈ ایمبیسڈر کے لیے بہترین انتخاب‘ ہیں۔
فوربز میگزین کے مطابق بحیثیت کرکٹر ان کی آمدن 40 لاکھ ڈالر رہی اور باقی رقوم انھوں نے تشہیر سے حاصل کیں۔

دس امیر ترین کھلاڑیوں کی فہرست

1۔ فلوئڈ مے ویدر، امریکہ، باکسنگ 30 کروڑ ڈالر
2۔ مینی پکوئیو، فلپائن، باکسنگ 16 کروڑ ڈالر
3۔ کرسٹیانو رونالڈو، پرتگال، فٹبال سات کروڑ 96 لاکھ ڈالر
4۔ لیونل میسی، ارجنٹائن، فٹبال سات کروڑ 38 لاکھ ڈالر
5۔ روجر فیڈرر، سوئٹزرلینڈ، ٹینس چھ کروڑ 70 لاکھ ڈالر
6۔ لوبورن جیمز، امریکہ، باسکٹ بال چھ کروڑ 48 لاکھ ڈالر
7۔ کیون ڈیورنٹ، امریکہ، باسکٹ بال پانچ کروڑ 41 لاکھ ڈالر
8۔ فل مکلسن، امریکہ، گالف پانچ کروڑ آٹھ لاکھ ڈالر
9۔ ٹائیگر ووڈز، امریکہ، گالف پانچ کروڑ چھ لاکھ ڈالر
10۔ کوبے برینٹ، امریکہ، باسکٹ بال چار کروڑ 95 لاکھ ڈالر

باب الاسلام سے "موئن جو دڙو" تک !



سندھی زبان میں "موئن" کا مطلب "مردے" اور "دڑو" کا مطلب "ٹیلہ" جبکہ "جو" "کا" کے لئے استعمال ہوتا ہے اس طرح لفظ بنتا ہے "مردوں کا ٹیلہ"

یہ سندھ کی قدیم ترین تہذیب ہے جو ٢٦٠٠ قبل از مسیح کا زمانہ ہے ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ ٣٠٠٠٠ ہزار کی آبادی والا یہ شہر جدید ڈسٹرکٹ لاڑکانہ میں واقع تھا ١٩٢٢ میں ایک ہندوستانی تاریخ دان اور محقق آر ڈی بنجیری (Rakhaldas Bandyopadhyay (Bengali: রাখালদাস বন্দোপাধ্যায়) نے دریافت کیا ......

ان کی تباہی کی کوئی معقول وجہ آج تک بیان نہیں کی جا سکی یہاں سے نکلنے والے مجسمے یہ بتاتے ہیں کہ یہ قوم بت پرست تھی اس قوم کی ایک خاص بات انکا آبپاشی کا نظام ہے
یہاں کنووں کا ایک باقائدہ نظام تھا موجود تھا جسکے ذریعہ پانی کو جمع کیا جاتا تھا عظیم حمام انکی خاص عبادت کا حصہ تھا جہاں مرد و عورت غسل کرتے تھے .
عظیم کنواں انکی خاص نشانی ہے (http://www.mohenjodaro.net/wellindus76.html) جو سینکڑوں چھوٹے کنووں تک پانی پہچانے کا بنیادی منبع تھا ...

قرآن کریم اور اسلامی تاریخ کے مطالعہ سے ایک عجیب انکشاف ہوا کہ اسلامی مصادر میں بھی ایک قوم کا تذکرہ ملتا ہے جنکی خاص علامت کنواں ہی تھا یعنی " اصحاب الرس "
قال تعالى في سورة الفرقان :

(( وَعَادًا وَثَمُودَ وَأَصْحَابَ الرَّسِّ وَقُرُونًا بَيْنَ ذَلِكَ كَثِيرًا )).

وقال تعالى في سورة ق:

(( كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَأَصْحَابُ الرَّسِّ وَثَمُودُ ))

قصص القرآن میں ایک عجیب واقعہ پڑھنے کو ملا

لغت میں رس کے معنی پرانے کنویں کے ہیں اور اصحاب الرس کے معنی ہوے کنوے والے

ابو بکر بن عمر بن حسن نقاش اور سہیلی کہتے ہیں اصحاب الرس کی بستی میں ایک بہت بڑا کنواں تھا جسکے پانی سے وہ پیتے اور اپنی کھیتیاں سیراب کرتے تھے اس بستی کا بادشاہ بہت عادل تھا اور لوگ اس سے بہت محبت کرتے تھے جب اس بادشاہ کا انتقال ہوا تو لوگ بہت غمگین ہوے ایک دن ایک سرکش شیطان اس بادشاہ کی شکل میں پہنچا اور کہنے لگا میں وقتی طور پر تم لوگوں سے دور ہوا تھا اور اب میں واپس آ گیا ہوں اور ہمیشہ زندہ رہونگا لوگ بہت خوش ہوے اور ایک عظیم جشن کا انتظام کیا اس فسٹیول کے بعد اس شیطان نے ان پر حکومت شروع کر دی اور ان لوگوں کو عیش و عشرت اور بت پرستی پر ڈال دیا .

کہتے ہیں ان لوگوں میں حنظلہ بن صفوان نامی نبی مبعوث کیے گئے جنہوں نے ان لوگوں پر دین کی دعوت پیش کی لیکن وہ لوگ شیطان کی پیروی میں اندھے ہو چکے تھے اور انہوں نے اس پیغمبر کو قتل کر دیا اور ان پر الله کا عذاب نازل ہوا تفسیر ابن کثیر سوره فرقان (البدایہ و النہایہ ١)

کچھ اور روایات میں ملتا ہے کہ ان پیغمبر کو ایک بڑے کنویں میں قید کر دیا گیا تھا اسی طرح ابن ابی حاتم کی روایت میں آتا ہے کہ اس قوم نے اپنے نبی کو کنویں میں دفن کر دیا تھا ...

آج کوئی بھی مکمل استحقاق سے نہیں کہ سکتا کہ "موئن جو دڙو" والے کون لوگ تھے اسی طرح اصحاب الرس کی باقاعدہ شناخت بھی ممکن نہیں لیکن دونوں کے مشترکات بیشمار ہیں
عظیم کنووں کا نظام
بت پرستی
خوشحالی کے بعد اچانک تباہی

محققین کیلئے میدان کھلا ہے کہ مزید تحقیق کرکے معاملے کی حقیقت کو واضح کیا جائے
(حصہ دوئم)
۴-موئن جو دڑو
موئن جو دڑو (سندھی:موئن جو دڙو اور اردو میں عموماً موہنجوداڑو بھی) وادی سندھ کی قدیم تہذیب کا ایک مرکز تھا۔ یہ لاڑکانہ سے بیس کلومیٹر دور اور سکھر سے 80 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے۔ یہ وادی سندھ کے ایک اور اہم مرکز ہڑپہ سے 400 میل دور ہے یہ شہر 2600 قبل مسیح موجود تھا اور 1700 قبل مسیح میں نامعلوم وجوہات کی بناء پر ختم ہوگیا۔ تاہم ماہرین کے خیال میں دریائے سندھ کے رخ کی تبدیلی، سیلاب، بیرونی حملہ آور یا زلزلہ اہم وجوہات ہوسکتی ہیں۔موئن جو دڑو کو 1922ء میں برطانوی ماہر آثار قدیمہ سر جان مارشل نے دریافت کیا اور ان کی گاڑی آج بھی موئن جو دڑو کے عجائب خانے کی زینت ہے۔لیکن ایک مکتبہ فکر ایسا بھی ہے جو اس تاثر کو غلط سمجھتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اسے غیر منقسم ہندوستان کے ماہر آثار قدیمہ آر کے بھنڈر نے 1911ء میں دریافت کیا تھا۔ موئن جو دڑو کنزرویشن سیل کے سابق ڈائریکٹر حاکم شاہ بخاری کا کہنا ہے کہ"آر کے بھنڈر نے بدھ مت کے مقامِ مقدس کی حیثیت سے اس جگہ کی تاریخی حیثیت کی جانب توجہ مبذول کروائی، جس کے لگ بھگ ایک عشرے بعد سر جان مارشل یہاں آئے اور انہوں نے اس جگہ کھدائی شروع کروائی۔"موئن جو دڑو سندھی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب مُردوں کا ٹیلہ ہے۔ یہ شہر بڑی ترتیب سے بسا ہوا تھا۔ اس شہر کی گلیاں کھلی اور سیدھی تھیں اور پانی کی نکاسی کا مناسب انتظام تھا۔ اندازاً اس میں 35000 کے قریب لوگ رہائش پذیر تھے۔ ماہرین کے مطابق یہ شہر 7 مرتبہ اجڑا اور دوبارہ بسایا گیا جس کی اہم ترین وجہ دریائے سندھ کا سیلاب تھا۔ یہ شہر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس و ثقافت یونیسکو کی جانب سے عالمی ورثہ قرار دیے گئے مقامات میں شامل ہے