The Daily Mail Urdu

Wednesday, July 20, 2016

دنیا کی پہلی خاتون مسلم پیلٹ

دنیا کی پہلی مسلم خاتون پیلٹ (حجاب امتیاز۔ 
حجاب کو 1936 میں انگلینڈ سے پیلٹ لائسنس ملا

Mrs. Hijab Imtiaz - First Muslim Lady Pilot

Wife of renown Urdu Author Syed Imtiaz Ali Taj, Mrs. Hijab Imtiaz received her Pilot License in England in October 1936. This news was published in daily "Inqilab" #Lahore on October 27, 1936.

جھونپڑی میں بیٹھے آدمی کی نصیحت


ایک شخص بہت ہی غریب تھا۔ اس نے اپنی بیوی سے مشورہ کیا کہ ایک ریئس آدمی کے ہاں غلامی کی جائے۔ اسکی بیوی نے اجازت دے دی۔ اسکی بیوی نے ابھی پہلا بیٹا ہی نہیں پیدا کیا تھا۔ کہ اپنی بیوی کو بھری جوانی میں چھور کر غلامی میں چلا گیا۔ تا کہ آنے والے بچے کا بہتر مستقبل بن جائے۔ وہ دور درزا ایک شہر میں چلا گیا۔ اور 20 سال اس ریئس آدمی کی خدمت کی۔ 20 سال بعد رئیس آدمی سے اجازت لی۔ کہ وہ اب گھر جانا چاہتا ہے۔ رئیس آدمی سخی بھی تھا۔ اس نے بہت ساری بکریاں گائے بھینس اور اونٹ دیے۔ اور امیر اور مالا مال بنا کر واپس بھیجا۔ وہ واپس آ رہا تھا۔ کہ صحرا سے گزر ہوا۔ اور راستے میں اسے ایک جھونپڑی ملی۔ اس میں ایک درویش آدمی تھا۔ اس کے پاس رات گزاری۔ غریب شخص نے رات کو درویش آدمی سے گزارش کی کہ وہ اسے نصیت کرے۔ درویش نے کہا کہ میں نصیت تو کروں گا۔ لیکن میں نصیت کرنے کی قیمت وصول کرتا ہوں۔ اس نے قیمت پوچھی۔ کہا کہ ہر نصیت کے بدلے ایک اونٹ۔ اس نے کہا کہ میں مال دار ہوں نصیت مل جائے۔ تو اونٹ کی کوئی بات نہیں۔ اس نے قیمت آدا کی۔ بررگ نے نصیت کی۔
۱۔ جب بھی آسمان پر تارئے ایک لائن میں دیکھوں تو فوراََ کسی پہاڑ پر چلے جانا۔ سیلاب آے گا۔
اس شخص نے کہا۔ کہ یہ نصحیت کسی کام کی نہیں۔ مجھے کوئی اور نصیت کی جائے۔ درویش نے کہا۔ کہ نئ قیمت آدا کروں۔
اس شخص نے ایک اور اونٹ دیا۔
۲۔ بزرگ نے کہا۔ کہ جب بھی کسی شخص کی آنکھوں میں شیطانی چمک دیکھوں۔ تو اس سے بچنا وہ تمہیں قتل کر دے گا۔
اس شخص نے کہا۔ کہ یہ نصحیت کسی کام کی نہیں۔ مجھے کوئی اور نصیت کی جائے۔ درویش نے کہا۔ کہ نئ قیمت آدا کروں۔
اس شخص نے ایک اور اونٹ دیا۔
۳۔ بزرگ نے پھر نصیت کی کہ رات کو پچھتا کر سو جانا۔ لکین کبھی بھی کسی انسان کو قتل نہ کرنا۔
اس شخص نے سوچا کہ تین اونٹ ضائع ہو گے۔ اور چپ کر کے سو گیا۔
صبح وہ چل دیا۔ سفر لمبا ہونے اور کئی دن کا سفر ہونے کی وجہ سے وہ ۳ نصحتیں بھول گیا۔ کہ وہ ایک رات ایک گاوٗں میں پہنچتاہے۔ رات کو جب وہ سونے لگتا ہے تو آسمانوں پر دیکھتا ہے۔ کہ تما ستارے ایک لائن میں آگے ہے۔ اسکو درویش کی نصیت یاد آجاتی ہے۔ وہ شور مچاتا ہے۔ گاوں والوں پہاڑ پر چلوں۔ سیلاب آنے والا ہے۔ لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ وہ اپنا مال
کھول کر پہاڑ پر لے جاتا ہے۔ اور سو جاتا ہے۔ صبح اٹھتا ہے۔ تو دیکھتا ہے۔ کہ نیچے سیلاب آگیا ہے۔ اور سارے گاوٗں والے
غرق ہو جاتے ہیں۔ وہ کچھ دن پہاڑ پر رہتا ہے۔ سیلاب کا پانی اترتا ہے۔ تو وہ اگلی منزل پر چل پڑتا ہے۔
ایک اور گاوٗں میں پڑاو ڈالتا ہے۔ ایک شخص کے گھر قیام کرتا ہے۔ جو کہ باتیں کرنے کا وہ بہت ہی اچھا معلوم ہوتا تھا۔
لیکن اس کی آنکھوں میں وہی شیطانی چمک دیکھ کر چونک جاتا ہے۔ بزرگ کی نصیت اسے یاد آتی ہے۔ رات کو وہ اسی کش مکش میں اسے نیند نہیں۔ آتی۔ وہ اٹھا۔ اور بستر کو اس انداز سے پھیلا دیا۔ کہ معلوم ہوتا تھا کہ کوئی سویا ہوا ہے۔ وہ آدمی آیا۔ اس کے ہاتھ میں خنجر دیکھ کر وہ پریشان ہوا ۔ وہ آیا اور بستر پر خنجر مارنا شروع کر دیا۔ یہ آیا۔ اور اسکو پیچھے سے پکڑ کر مارنا شروع کردیا۔ اور اسے باندھ دیا۔ پولیس کو بلایا اور اس کو پولیس کے حوالے کر دیا۔
آخر کار وہ رات کو اپنے گاوٗں میں پنچتا ہے۔ اور اپنے گھر کے پاس پہنچ کر دیکھتا ہے۔ گھر میں اسکی بیوی کسی کڑیئل نوجوان کے ساتھ والی چارپائی پر سوئی پڑی ہے۔ اس شخص کو غصہ آیا۔ اور دل میں خیال آیا کہ میں اس نوجوان کو قتل کر دوٗں۔ جیسے ہی وہ ارادہ کرتا ہے۔ اسے اس درویش کی بات یاد آتی ہے۔ کہ کبھی بھی قتل کر کے نہ سونا۔ پچھتا کر سوجانا۔ وہ سوچتا ہے۔ کہ پہلی بھی نصیت کا م کر گی۔ دوسری نصیت نے بھی کام کیا۔ لہذا وہ گاوں سے باہر آجاتا ہے۔ صبح ہو ئی اس کے دل میں خیال آیا کہ گاوں والوں سے اپنا حال دریافت کروں۔ جیسے ہی گاوں میں جاتا ہے۔ اپنے بارے میں دریافت کرتاہے۔ گاوں والے بتاتے ہیں۔ کہ وہ شخص بہت ہی غریب تھا۔ اور برسوں پہلے روزی روٹی کے لیے چلا گیا۔ اس نے مزید دریافت کیا کہ جب وہ جانے لگا تو بچہ ہونے والا تھا۔ گاوں والوں نے بتایا۔ ہاں اللہ نے اسے ایک بیٹا دیا ہے۔ جو کہ اب کڑیل جوان ہو گیا ہے۔ اس کے ذہن میں آیا جو رات کو نوجوان تھا وہ میر ا ہی بیٹا تھا۔ جسے قتل کرنے کا خیال اس کے دل میں آیا تھا۔ وہ گھر گیا۔ اور بیوی اور بیٹے سے ملا۔
تو دوستوں سچ ہی کہتے ہیں۔ اگر کوئی بھی بڑا آپ کو نصیت کرے تو اس کو پلَے سے باندھ لینا چاہیے۔ آجکل بزرگ نصیت کرے تو اولاد آگے سے ڈانٹ دیتے ہیں۔ ہر نصیت پر غور کرنا چاہیے۔ جو غور نہیں کرتے وہ پھر پچھتاتے ہیں...

دنیا کی تاریخ میں پہلی دفعہ کافی کس ملک میں بنائی گئی


1920 اور 1930 کی دہائی میں ساؤتھ انڈیا میں کافی کی کاشت کو فروغ دیا جانے لگا کافی کی کھپت بڑھانے کے لئے 1935 میں انڈیا کافی بورڈ تشکیل دیا گیا جسکے زیرِ سایہ برٹش انڈیا کے بڑے بڑے شہروں میں "انڈیا کافی ہاؤس" کے نام سے ریسٹورنٹس کھولے گئے جسکی پہلی شاخ 1936 میں بمبئی چرچ گیٹ پہ کھولی گئی اسی طرز پہ کراچی اور لاہور میں انڈیا کافی ہاؤس کی شاخوں کی بنیاد رکھی گئی مگر جو اہمیت لاہور کے کافی ہاؤس کو حاصل تھی وہ کسی کے حصے میں نہ آئی
1941 میں YMCA بلڈنگ مال روڈ لاہور پہ "انٖڈیا کافی ہاؤس" کے نام سے ایک شاخ کھولی گئی جو جلد ہی شاعروں، صحافیوں، نقادوں،وکلا اور یونیورسٹیوں کے طالبعلمموں میں مقبول عام ہو گئی۔قیامِ پاکستان سے پہلے انڈیا کافی ہاؤس نے کافی جگہیں تبدیل کیں YMCA بلڈنگ،آف مال روڈ، اور ٹی ہاؤس کی جگہ بھی پہلے کافی ہاؤس نے لے رکھی تھی اور بعد میں تاآخر الفریڈ بلڈنگ اسکا مقام ٹھہرا
قیامِ پاکستان کے بعد اسکے نام "انڈیا کافی ہاؤس" سے انڈیا پہ پینٹ کر دیا گیا اے حمید اپنے مضمون "لاہور لاہور اے" میں لکھتے ہیں کہ انڈیا پہ پینٹ کر کے پاکستان لکھ دیا گیا تھا یوں یہ پاکستان کافی ہاؤس ہو گیا
کافی ہاؤس تقریبا" 35 سال تک دانشوروں،شاعروں کی آماجگاہ بنا رہا ٹی ہاؤس سے 150 گز کے فاصلے پر کافی ہاؤس لاہور کے ادبی حلقوں میں نمایاں حٰیثیت رکھتا تھا پاک ٹی ہاؤس شاعروں ادیبوں کا مرکز تھا جب کہ کافی ہاؤس میں وکلاء، سیاستدان، صحافی اور نقاد حضرات زیادہ تر بیٹھتے تھے آزادی سے پہلے کہنیا لال کپور،چراغ حسرت حسن، دیورندر ستھارتھی، سید عابد علی عابد، عبداللہ ملک، باری علیگ، اور شیخ حشام الدین یہاں بیٹھتے تھے ناصر کاظمی بھی کبھی کبھار آ جاتا تھا فلم سٹار شان کے والد ریاض شاہد مرحوم بھی کافی ہاؤس میں آیا کرتے تھے نگینہ بیکری سے اٹھ کر بیشتر ادیب کافی ہاؤس میں بیٹھنے لگے قیام پاکساتن کے بعد کافی ہاؤس میں خاصی تبدیلی رونما ہو گئی سید سبط حسین، ناصر کاظمی، ریاض قادر، اور شاکر علی مصور، مشہور وکلاء اور مختلف ادیب و شاعر اب یہاں بیٹھنے لگے تھے ڈاکٹر عبدالسلام خورشید اپنی آپ بیتی ’’رو میں ہے رخش عمر‘‘ میں لکھتے ہیں۔ کافی ہاؤس نوجوانوں ، دانشوروں اور طلباء کا مرکز تھا۔ یہاں ہر زاویہ نگاہ کے لوگ آتے اور دنیا بھر کے مسائل پر تبادلہ خیال کرتے اور اس کی فضاء اتنی Acosmopolitan تھی کہ جن دنوں فرقہ وارانہ فسادات کا زور تھا۔ ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کی جان کے لاگو تھے اور مارچ 1947ء کے فسادات میں بعض اوقات پوری مال روڈ ویران ہو جاتی تھی۔ ان دنوں بھی کافی ہاؤس میں خوب گہما گہمی رہتی تھی۔ باری علیگ کافی ہاؤس میں اپنے دوستوں ، کیمونسٹ پارٹی کے نمایاں کا رکن فیروز الدین اور منصور پاکستان کے وزیر قانون شیخ خورشید احمد خان، مولوی عبدالقدیر نعمانی اور سید احمد سعید کرمانی کے ساتھ دن میں دو مرتبہ نشست لگاتے تھے۔ وہ گھنٹوں ملکی حالات اور صحافت پر تبصرہ کرتے اور کافی ہاؤس کی فضاء باری علیگ کے قہقہوں سے گونج اٹھتی۔ یہاں زیادہ تر ایسے لوگوں کی آمدو رفت بھی رہتی تھی۔ جنہیں بحث و مباحثہ کے علاوہ اور کوئی کام نہیں تھا۔ عبدالسلام خورشید لکھتے ہیں۔ کافی ہاؤس بے کاروں اور بے روز گاروں کا بھی اڈہ تھا۔ اور ایسے لوگوں کا بھی جنہوں نے ذرا مختلف دماغ پایا۔ چنانچہ ایک ایسے صاحب بھی آتے تھے جو شہزادی الزبتھ سے یک طرفہ عشق کے دعویدار تھے۔
کافی ہاؤس کا ویٹر منشی جی بھی اپنی مثال آپ تھا منشی جی کا اصل نام شمشاد حسین صدیقی تھا لیکن بہت کم لوگ اسکے اصل نام سے واقف تھے ادب اور ادیب دوست منشی جی ادیبوں اور شاعروں کے مالی حال سے بخوبی واقف تھے اسی لئے جب کوئی پان یا سگریٹ کے پیسے نہ دے پاتا تو منشی جی سنبھال لیتے تھے قریبا" 1975 میں جب کافی ہاؤس بند ہو گی تو منشی جی مال روڈ پر ایک اور ریسٹورنٹ میں چلے گئے کافی سالوں بعد منشی جی کا بیٹا انتظار حسین سے ملنے پاک ٹی ہاؤس گیا اور منشی جی کے گزرنے کی اطلاع دی اور بتایا کہ منشی جی جب بستر المرگ پہ تھے تو کافی ہاؤس کے دوستوں کو یاد کیا کرتے تھے اور خواہش ظاہر کی تھی کہ میں انتظار حسین سے مل کر دیگر دوستوں کو نیک خواہشات پہنچاؤں۔ منشی جی کے دیگر دوستوں میں کشور ناہید، یوسف کامران، کمال احمد رضوی، سیف الدین سیف اور اعجاز حسین بٹالوی تھے – انتظار حسین کے مطابق منشی جی کافی ہاؤس کی آخری نشانی تھے اور یہ 1981 کا سال تھا
لاہور کے کافی ہاؤس اور دیگر چائے خانوں کا مقصد کھانا پینا ہرگز نہیں تھا ان چائے خانوں کے مینیجرز بھی جانتے تھے کہ انکے گاہک فقط کافی،چائے،پیسٹری،سگریٹ،پان یا چکن سینڈوچ کے لئے نہیں آتے تھے یہ لوگ گپ شپ اور حالاتِ حاضرہ پہ گفتگو کے لئے یہاں اکٹھے ہوا کرتے تھے اسی لئے بہت سے لوگ بنا کچھ کھائے پیے گھنٹوں میزوں پر محفل جمائے رکھتے تھے اور مینجرز یا بیرے ان سے ایک لفظ بھی نہیں کہتے تھے ناصر کاظمی بھی یہاں اکثر چکر لگایا کرتے تھے اور بعضن دفعہ سیاسی شخصیات بھی یہاں دیکھنے کو مل جاتی تھیں ایک دفعہ بھٹو صاحب بھی حبیب جالب سے ملنے کافی ہاؤس آن پہنچے تھے
یہ لاہور کا سنہری دور تھا اس دور کی یادوں کو دہراتے ہوئے ناجانے کیوں مجھے یونانی فلسفیوں کا دور یاد آ جاتا ہے جہاں فارغ وقت کے مشاغل میں فقط علمی بحث ہوا کرتی تھی لوگ گلی کوچوں،شراب خانوں میں علمی بحث کرتے نظر آتے روح کی تسکین ایسے ہی کاموں سے ممکن ہو سکتی ہے آج ٹی وی، موبائل،فاسٹ فوڈ کے دور میں یہ نایاب چاۓ خانے قصہ پارینہ بن چکے پاک ٹی ہاؤس کے علاوہ اور بھی ایسے ریسٹورنٹس زندہ دلانِ لاہور میں موجود ہیں لیکن علمی و ادبی ثقافت کہیں گم ہو چکی ہے
فیس بک پہ"پاک کافی ہاؤس" کے نام سے یہ ادبی صفحہ اسی دور کیسنہری یادوں کو دہرانے کے لئے بنایا گیا ہے امید ہے احباب خاص طور پہ ناسٹلجیا کے شکار دوستوں کو یہ ادنیٰ کاوش پسند آئے گی

کیا آپ جانتے ہیں ارفع کریم کون تھی؟


 پاکستان کا ننھا ستارہ ، جان پاکستان، مثبت پاکستان یہ لکھتے ہوئے میری آنکھیں اشک بار ہیں لیکن رضا الہی کے آگے سب کو صبر کرنا ہے کیونکہ جو اس دنیا میں آیا ہے اس نے جانا ہے کسی نے جلدی اور کسی نے طویل عمر پانے کے بعد اج اک طرف اربعین کے سوگواروں کا دن منایا جا رہا ہے وہیں پاکستان سے محبت کرنے والے ہر شخص کا دل ضرور اداس ہوگا کیونکہ اج ارفع کریم ہم میں نہیں رہی ۔ ۔ ۔ 

انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا میں تہلکہ مچا دینے والی جس کی ذہانت نے بل گیٹس جسے انسان کو حیران کردیا تھا۔ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی انتہائی ہنس مکھ بچی نے  صرف 9 سال کی عمر مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل امتحان پاس کرکے  نا صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر کے میڈیا کی توجہ حاصل کرلی تھی۔ اتنی بڑی کامیابی حاصل کرنے کے بعد  ارفع کو مائیکرو سافٹ کمپنی کے مالک بل گیٹس نے خصوصی طور پر امریکہ بلا کر ان سے ملاقات بھی کی ۔ ارفع کے والدین کا کہنا تھا کہ ارفع بچپن سے ہی دیگر بچوں سے زیادہ ذہین تھی یہی وجہ ہے کہ اس کو اسکول بھیجنے کے لئے ہمیں اس کے تین سال کے ہونے کا انتظار کرنا پڑا۔ ارفع نے اتنی کم عمری میں ایسے قومی ایوارڈ بھی حاصل کئے جس کے لئے لوگ ساری عمر پاپڑ بیلتے ہیں۔ 2004 میں دنیا کا کم عمر ترین مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنلسٹ بنے کے بعد اگست 2005 میں  فاطمہ جناح گولڈ میڈل اور سلام پاکستان ایوارڈ دیا گیا اور پھر حکومت پاکستان کی جانب سے پرائڈ آف پرفامنس کی بھی حق دار بنی ۔ ۔ارفع نے اپنی اس کامیابیوں کو صرف اپنے تک مخصوص نہیں رکھا بلکہ دنیا بھر کے فورمز پر جہاں جہاں ان کو بلایا جاتا وہ سب سے پہلے پاکستان کی نمائندگی کرتی جو ان کی اپنے وطن کے لئے بہت بڑی خدمت تھی۔ کیونکہ ارفع اچھی طرح جانتی تھی کہ ان کا ملک دنیا بھر میں دہشتگردی کے نام سے جانا جاتا ہے۔  ارفع کی انتی سی عمر میں انتی کامیابیاں اک طرف تھی  اگر اس کی  نجی زندگی پر ڈالی جائے تو ان کے دوستوں سے پتہ چلے گا وہ انتہائی بااخلاق اور احساس طعبیت کی مالک تھی ۔۔ ان کے والد امجد کریم رندھاوا کہتے ہیں کہ ان کی بیٹی نے ایک شرارے  کی طرح زندگی گزاری  ہے جس نے پوری دنیا سے پیار اور محبت حاصل کیا اور ہمیں اس کی سوچ اور آئیڈیاز پر فخر کرنا چاہیے ۔ واقعی میں ارفع کے والد کی بات سے اتفاق کرتی ہوں کیونکہ ارفع کریم ہمارے درمیان ہمیشہ فخرِپاکستان بن کر زندہ رہے گی

ماں کیلئے کھودی گئی قبرمیں سعودی بیٹے کی موت ہوگئی


ریاض ( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔20جولائی۔2016ء ) سعودی عرب میں ایک 68سالہ شہری کی اپنی والدہ کی آخری رسومات کی ادائیگی کے موقع پر قبرمیں ہی موت ہوگئ.

عرب میڈیا کے مطابق جب خاتون کے جسد خاکی کو قبرمیں اتاراجارہاتھا تو اس کے بیٹے نے دھاڑیں مارناشروع کردیں ، پھر اچانک وہ اپنی والدہ کیلئے تیار کی گئی قبرمیں گر گیا،اٹھاکر ہسپتال منتقل کیاگیاجہاں اس کی موت کی تصدیق کردی گئی۔مرحوم کے بھائی نے بتایاکہ وہ شوگر اور بلڈ پریشر کے مرض میں مبتلاء تھا،ایسالگتاہے کہ وہ یہ نہیں چاہتاتھاکہ اس کی والدہ اس دنیا کوخیرباد کہہ کر اکیلئے جائیں۔

سعودی عرب نے جنگ کا اعلان کردیا


برسلز(ڈیلی میل اُردو اخبارتازہ ترین۔19 جولائی ۔2016ء)سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کہا ہے کہ خلیجی ممالک اور یورپی یونین کے درمیان تاریخی دوستانہ تعلقات بدستور قائم ہیں۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جاری جنگ میں خلیجی ممالک عالمی اور علاقائی قوتوں کے ساتھ مل کر جدوجہد جاری رکھیں گے۔عرب ٹی وی کیمطابق سعودی وزیر خارجہ نے ان خیالات کا اظہار برسلز میں یورپی یونین کی وزیرخارجہ فیڈریکا موگرینی کے ہمراہ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب میں کیا۔
انہوں نے کہا کہ خطے میں دہشت گردی کا مسئلہ شام کے مسئلے کے حل سے وابستہ ہے۔ سعودی عرب شام کی اعتدال پسند قوتوں کی مدد اور داعش کے خلاف جنگ جاری رکھے گا۔یمن میں قیام امن سے متعلق ایک سوال کے جواب میں سعودی وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ یمن کے بحران کا حل عالمی قراردادوں پرعمل درآمد میں مضمر ہے۔
لجبیر کا کہنا تھا کہ یمن کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کے ساتھ بدستور تعاون جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جنگ کے خاتمے فوری بعد ہم یمن کی تعمیر نو کا آغاز کریں گے۔اس موقع پر یورپی یونین کی وزیرخارجہ موگرینی نے کہاکہ ہم سعودی عرب کی طرف سے زندگی کے مختلف شعبوں میں تعاون کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ انہوں نے بھی داعش کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے لیے باہمی تعاون برقرار رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے یمن میں جنگ کے خاتمے کے لیے سعودی عرب کی طرف سے مذاکرات کی مساعی کا بھی خیر مقدم کیا۔