حالیہ عرصے میں ایسی رپورٹیں منظرعام پر آئی ہیں جو تہران کو دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ مربوط کرنے کے علاوہ اس بات کے کثیر شواہد بھی پیش کرتی ہیں کہ یہ تعلق 2001ء سے قائم ہے۔
مذکورہ دستاویزات اور معلومات کے ذریعے سامنے آنے والے تہران اور داعش تنظیم کے تعلق نے اس حوالے سے پھیلی پہیلیوں کا بھی خاتمہ کردیا ہے۔
دستاویزات سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ تہران اور داعش کے درمیان تعلق ابتدا میں سابق کمانڈر ابو مصعب الزرقاوی کی صورت میں تھا۔ یہ تعلق افغان لیڈر گلبدین حکمت یار کی وساطت سے قائم ہوا تھا ، بعد ازاں حکمت یار تہران کے مخالف بن گئے تھے۔
معلومات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ الزرقاوی عراق میں داخل ہونے کی تیاری کے سلسلے میں ایران فرار ہوگیا تھا۔
امریکی جریدے "اٹلانٹک" کی رپورٹ میں ابو مصعب الزرقاوی کے ایران میں قیام کا انکشاف کیا گیا ہے جو 2001 میں افغانستان سے ایران پہنچا تھا اور پھر وہاں 14 ماہ قیام کیا۔
رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ الزرقاوی کو سپورٹ کرنے کی ایران کے پاس بہت سی وجوہات تھیں۔ ان میں اہم ترین وجہ عراق پر کنٹرول کی ایرانی خواہش تھی اور اس کے لیے عراق کو غیرمستحکم رکھنا ضروری تھا۔
امریکی خارجہ تعلقات کونسل کی رپورٹ میں بھی اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ ایران نے داعش کے وجود کو استعمال کیا تاکہ وہ مشرق وسطی میں اپنی طاقت کو مضبوط کرسکے۔ اس نے داعش کے خلاف جنگ کے سلسلے میں عراق اور شام میں خود سے ہی حلیف تیار کیے۔ اس طرح ایران کو دونوں ملکوں میں اپنی موجودگی بڑھانے کا بہانہ مل گیا۔ اسی دوران اس نے داعش کے خلاف برسرجنگ ہونے اور ایرانی نمائندگی کو پھیلانے کے لیے اپنے زیرانتظام مسلح تنظیمیں تشکیل دیں۔
ادھر داعش کے نمودار ہونے کے بعد سے امریکی میڈیا کی اور دیگر متعدد تجزیاتی رپورٹوں میں یہ غالب گمان ظاہر کیا گیا ہے کہ ایران داعش کے خطرے سے فائدہ اٹھا رہا ہے تاکہ امریکا کے لیے پسندیدہ حلیف کی صورت میں ظاہر ہوسکے۔