The Daily Mail Urdu

Sunday, July 31, 2016

ایران کی 2001ء سے "شدت پسندی" کی سپورٹ


حالیہ عرصے میں ایسی رپورٹیں منظرعام پر آئی ہیں جو تہران کو دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ مربوط کرنے کے علاوہ اس بات کے کثیر شواہد بھی پیش کرتی ہیں کہ یہ تعلق 2001ء سے قائم ہے۔
مذکورہ دستاویزات اور معلومات کے ذریعے سامنے آنے والے تہران اور داعش تنظیم کے تعلق نے اس حوالے سے پھیلی پہیلیوں کا بھی خاتمہ کردیا ہے۔
دستاویزات سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ تہران اور داعش کے درمیان تعلق ابتدا میں سابق کمانڈر ابو مصعب الزرقاوی کی صورت میں تھا۔ یہ تعلق افغان لیڈر گلبدین حکمت یار کی وساطت سے قائم ہوا تھا ، بعد ازاں حکمت یار تہران کے مخالف بن گئے تھے۔
معلومات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ الزرقاوی عراق میں داخل ہونے کی تیاری کے سلسلے میں ایران فرار ہوگیا تھا۔
امریکی جریدے "اٹلانٹک" کی رپورٹ میں ابو مصعب الزرقاوی کے ایران میں قیام کا انکشاف کیا گیا ہے جو 2001 میں افغانستان سے ایران پہنچا تھا اور پھر وہاں 14 ماہ قیام کیا۔
رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ الزرقاوی کو سپورٹ کرنے کی ایران کے پاس بہت سی وجوہات تھیں۔ ان میں اہم ترین وجہ عراق پر کنٹرول کی ایرانی خواہش تھی اور اس کے لیے عراق کو غیرمستحکم رکھنا ضروری تھا۔
امریکی خارجہ تعلقات کونسل کی رپورٹ میں بھی اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ ایران نے داعش کے وجود کو استعمال کیا تاکہ وہ مشرق وسطی میں اپنی طاقت کو مضبوط کرسکے۔ اس نے داعش کے خلاف جنگ کے سلسلے میں عراق اور شام میں خود سے ہی حلیف تیار کیے۔ اس طرح ایران کو دونوں ملکوں میں اپنی موجودگی بڑھانے کا بہانہ مل گیا۔ اسی دوران اس نے داعش کے خلاف برسرجنگ ہونے اور ایرانی نمائندگی کو پھیلانے کے لیے اپنے زیرانتظام مسلح تنظیمیں تشکیل دیں۔
ادھر داعش کے نمودار ہونے کے بعد سے امریکی میڈیا کی اور دیگر متعدد تجزیاتی رپورٹوں میں یہ غالب گمان ظاہر کیا گیا ہے کہ ایران داعش کے خطرے سے فائدہ اٹھا رہا ہے تاکہ امریکا کے لیے پسندیدہ حلیف کی صورت میں ظاہر ہوسکے۔

پورن اسٹار کے ایران کے دورے نے طوفان کھڑا کر دیا


فحش فلموں کی برطانوی اداکارہ "Candy Charms" کے اس انکشاف نے کہ انہوں نے اپنی ناک کی کاسمیٹک سرجری کے لیے "اسلامی جمہوریہ ایران" کا دورہ کیا، ایک طوفان کھڑا کر دیا ہے۔ کینڈی نے انسٹاگرام پر ایک تصویر بھی پوسٹ کی ہے جس میں انہوں ایرانی خواتین کی طرح بالوں کو ڈھانپ رکھا ہے۔
برطانوی اداکارہ نے اپنی تصویر کے (جو لگتا ہے کہ گاڑی میں لی گئی ہے) ایک جانب تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہوں نے چھٹیاں گزارنے کے لیے ایران کا سفر کیا اور ساتھ ہی اپنے فالوورز سے ان کے تبصروں کا جواب نہ دے پانے پر معذرت بھی کی کیوں کہ ایران میں سماجی رابطے کی ویب سائٹس بلاک ہیں۔
کینڈی چارمز جن کی عمر 27 برس ہے امریکا میں رہتی ہیں۔ انہوں نے چار سال قبل فحش فلموں کی اداکارہ کے طور پر کام شروع کیا۔
کینڈی چارمز نے اپنے پیج پر اس شخصیت کا شکریہ ادا کیا جس نے ایرانی سرزمین میں داخل ہونے کے لیے ویزے کے حصول میں ان کی مدد کی۔ کینڈی نے یہ واضح نہیں کیا کہ آیا ایرانی سفارت خانہ ان کے کام کی نوعیت جانتا ہے یا نہیں تاہم کینڈی نے باور کرایا کہ ان کے اہل خانہ اور قریبی دوستوں کے سوا تہران کے دورے کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں تھا۔
فحش فلموں کی اداکارہ کو یہ نہیں معلوم تھا کہ محض ایران کے دورے کا ذکر کرنے سے ہی نہ صرف ایرانیوں بلکہ دنیا بھر میں کینڈی کے فالوورز کے درمیان ایک طوفان کھڑا ہوجائے گا۔ کینڈی کی تصویر پوسٹ ہونے کے چند گھنٹوں کے اندر ہی 40 ہزار افراد نے اس پر تبصرہ کیا۔
ایرانیوں نے سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل جانے والی اس خبر کا فائدہ اٹھایا۔ معاملہ سوشل میڈیا تک ہی محدود نہ رہا بلکہ فارسی زبان کے ایرانی اور غیرملکی میڈیا میں بھی فحش فلموں کی اداکارہ کے دورہ ایران کی خبر گردش میں رہی۔
اپنے ابتدائی تبصرے میں کینڈی چارمز نے صرف یہ بتایا تھا کہ وہ تہران میں چھٹیاں گزارنے کے لیے تھیں تاہم جلد ہی انہوں نے اپنے ایک دوست کے سوال کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ وہ اپنی ناک کی کاسمیٹک سرجری کے لیے تہران گئی تھیں کیوں کہ بقول کینڈی ناک کی کاسمیٹک سرجری کے لیے ایران بہترین ملک ہے۔
بعض فالوورز نے ڈاکٹر امیر حسین ناصری کا نام لے کر کہا ہے کہ انہوں نے کینڈی چارمز کی سرجری کی۔ اس کے نتیجے میں ناصری انسٹاگرام پر اپنا پیج بند کرنے پر مجبور ہوگئے تاکہ سوشل میڈیا کے کارکنان کے دھاوے سے بچ سکیں۔
چارمز کے دورہ تہران کی وجہ سامنے آنے کے بعد بہت سے لوگوں نے سوال اٹھایا ہے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایران کے مذہبی حکام کو فحش فلموں کی اداکارہ کے دورے کے بارے میں معلوم نہ ہو؟ بالخصوص جب کہ کینڈی نے اپنے اس ساتھی کا شکریہ بھی ادا کیا جس نے "اسلامی جمہوریہ ایران" کے سفارت خانے سے ویزا دلوانے میں فحش فلمون کی اداکارہ کی مدد کی۔
وہ بھی ایسے وقت میں جب کہ ایرانی حکام نے انسانی حقوق کے کارکنان اور غیرملکی صحافیوں کو ایران کے سفر کے لیے ویزا دینے میں سخت گیری اختیار کر رکھی ہے