The Daily Mail Urdu

Thursday, July 21, 2016

مصنوعی روشنی میں زیادہ وقت گزارنا صحت کیلیے نقصان دہ ہے، تحقیق

اگر آپ مناسب وقت اندھیرے میں نہیں گزاررہے تو اس سے جلن اور پٹھے کمزور ہوسکتے ہیں، ماہرین، فوٹو؛ فائل
ایمسٹر ڈیم: اگر آپ درست غذا کھارہے ہیں اور ورزش بھی کررہے ہیں تب بھی صحتمند رہنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ مناسب وقت اندھیرے میں گزاریں اور مصنوعی روشنیوں سے دور رہیں۔
تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ رات کے وقت کسی بلب وغیرہ کی مسلسل روشنی آپ کی صحت پر مضر اثرات مرتب کرتی ہے اور مسلسل روشنیوں میں گھرے رہنا جانداروں کے لیے مضرثابت ہوتا ہے۔
ہالینڈ میں لائیڈن یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کے ماہرین کی جانب سے چوہوں پر کیے گئے تجربات میں انہیں قدرتی ( سورج کی ) روشنی اور پھر مصنوعی (بلب وغیرہ کی) روشنی میں رکھا گیا لیکن انہیں اندھیرے میں نہیں رکھا گیا، یہ سلسلہ کئی ماہ تک جاری رہا تو معلوم ہوا کہ چوہوں کا دماغ بری طرح متاثر ہوا اور ان کی ہڈیاں اور پٹھے کمزور ہونے لگے جب کہ چوہے بڑی تیزی سے جراثیم کے شکار ہونے لگے اور ان کے بدن کا دفاعی نظام پر کمزور ہونے لگا۔
ماہرین کے مطابق جیسے ہی چوہوں کو معمول کے تحت روشنی اور اندھیرے میں رکھا گیا تو 2 ہفتوں بعد چوہے دوبارہ صحت مند ہونے لگے اور صحت بہتر ہونے لگی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسانوں کے لیے اندھیرا بھی بہت ضروری ہے۔
ماہرین کا کہنا ہےکہ 24 گھنٹوں میں روشنی اور اندھیرے کا دورانیہ انسانوں کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہ انسان کی اندرونی گھڑی کو درست رکھتا ہے۔ ماہرین نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ دنیا کی 75  فیصد آبادی رات کے وقت بھی مصنوعی روشنیوں کی زد میں رہتی ہے اور اس طرح ان کی صحت متاثر ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ اسپتالوں میں نرس، ڈاکٹر، رات کے وقت کام کرنے والے افراد دن رات ہی روشنیوں میں گھرے ہوتے ہیں اور اس طرح ان کی صحت متاثر ہوسکتی ہے۔

ایسا چھوٹا میموری کارڈ جو 12 کروڑ کتابوں کا ڈیٹا محفوظ کرسکے گا

نئی تکنیک کے ذریعے محفوظ کیے گئے ڈیٹا کی کثافت ’’موجودہ ہارڈ ڈسک ٹیکنالوجی کے مقابلے میں 2 سے 3 گنا زیادہ ہے۔ فوٹو؛ فائل
ایمسٹرڈیم: ایک وقت تھا جب چند کلو بائٹ مواد کو محفوظ رکھنےکے لیے بھی بڑی بڑی مشینیں درکار تھیں لیکن اب ہم چھوٹے سے ایس ڈی کارڈ میں سیکڑوں گیگا بائٹس ڈیٹا اپنے ساتھ لئے پھرتے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب صرف 0.1 ملی میٹر چوڑائی والے ایک مکعب میں 12 کروڑ کتابوں سے بھی زیادہ کا مواد سمویا جاسکے گا۔
ہالینڈ کی ڈیلفٹ یونیورسٹی سے منسلک ماہرین کی ٹیم نے ایسی میموری ڈیوائس کا تجربہ کیا ہے جس میں صرف ایک مربع انچ کے رقبے پر 500 ٹیرابائٹس جتنا ڈیٹا محفوظ کیا جاسکے گا۔ سرِدست یہ میموری مائع نائٹروجن کے درجہ حرارت یعنی 77 ڈگری کیلون (منفی 196 ڈگری سینٹی گریڈ) پر ہی کام کرسکتی ہے۔

بیٹھے بیٹھے چربی گھلانے اور اسمارٹ بنانے والی کرسی

یہ کرسی آپ کی صحت پر نظر رکھنے کے علاوہ آپ کو بیٹھے بیٹھے ورزشیں بھی کروائے گی۔ فوٹو: فائل
جرمنی: ماہرین ایک ایسی ’’ذہین آرام کرسی‘‘ تیار کررہے ہیں جو خود پر بیٹھنے والے کو چربی گھلانے اور وزن گھٹانے سمیت، صحت بہتر بنانے کی بیشتر ورزشیں بیٹھے بیٹھے ہی کروادیا کرے گی۔ 
جرمنی کی بائیلی فیلڈ یونیورسٹی کے ماہرین ایک ایسی کرسی تیار کررہے ہیں جو بظاہر یہ ایک معمولی سی آرام کرسی دکھائی دیتی ہے لیکن درحقیقت یہ درجنوں ایسے خودکار آلات سے لیس ہے جو اس پر بیٹھنے والے کو شناخت کرسکتے ہیں، دھڑکن کی رفتار اور وزن سے لے کر صحت سے متعلق دوسری اہم معلومات پر نظر رکھ سکتے ہیں، بیٹھے بیٹھے کئی ورزشیں کراسکتے ہیں، نشست و برخاست (پوسچر) کے بہتر انداز کے بارے میں مشورے دے سکتے ہیں اور بیٹھنے والے کی جسمانی کیفیات میں بتدریج تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ان ورزشوں کے دورانیے اور نوعیت میں بھی تبدیلی کرسکتے ہیں۔
یہ کرسی اس انداز سے تیار کی جارہی ہے کہ گھر کے تمام افراد اسے باری باری استعمال کرسکتے ہیں اور یہ ہر ایک کو (اس کے اسمارٹ بینڈ یا اسمارٹ واچ کی مدد سے) علیحدہ علیحدہ شناخت کرکے اپنے اندر اسی حساب سے تبدیلیاں بھی کرسکتی ہے۔ اور اگر کوئی اس کی اضافی خصوصیات سے استفادہ نہیں کرنا چاہتا تو وہ اس کے خودکار نظاموں کو وقتی طور پر معطل کرکے اسے ایک سادہ سی آرام کرسی کے طور پر بھی استعمال کرسکتا ہے۔
اس کرسی کو عارضی طور پر ’’پرسنل ٹرینر‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ کرسی اور اس جیسی دوسری گھریلو ایجادات، بائیلی فیلڈ یونیورسٹی میں ’’کوگنی ہوم‘‘ (KogniHome) کے نام سے جاری، ایک بڑے تحقیقی منصوبے کا حصہ ہیں جس کا مقصد ایسے ’’ذہین گھروں‘‘ کی تیاری ہے جو اپنے رہنے والوں تمام ضروریات کا خود ہی خیال رکھ سکے اور متوسط طبقے کی پہنچ میں بھی ہو۔

امریکی خلائی ادارے ناسا کی ’’کیپلر خلائی دوربین‘‘ نے زمین جیسے مزید 2 سیارے دریافت کرلئے

ناسا کی ’’کیپلر‘‘ نامی خلائی دوربین نے ہمارے نظامِ شمسی سے باہر مزید 104 سیارے دریافت کئے ہیں۔ فوٹو: ناسا
پیساڈینا، کیلیفورنیا: نیشنل ایئروناٹکس اینڈ اسپیس ایڈمنسٹریشن (ناسا) کی خلائی دوربین ’’کیپلر‘‘ نے نظامِ شمسی سے باہر مزید 104 سیارے دریافت کئے ہیں جن میں سے دو سیارے ہماری زمین سے بہت زیادہ مماثلت رکھتے ہیں اور کوئی بعید نہیں کہ وہاں ہمارے سیارے کی طرح زندگی بھی موجود ہو۔
ناسا کی ’’کیپلر‘‘ خلائی دوربین اس وقت ’’کے ٹو‘‘ (K2) نامی مشن پر ہے۔ مذکورہ سیارے بھی اسی مشن کے تحت دریافت کئے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک سیاروی نظام (پلینٹری سسٹم) نے، جس کا نام ’’K2-72‘‘ رکھا گیا ہے اوراس نے ماہرین کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلی۔ اس نظام کا مرکزی ستارہ ہمارے سورج کے مقابلے میں نصف جسامت والا اور کم روشن ہے۔ یہ ’’برجِ دلو‘‘ کی سمت میں زمین سے 181 نوری سال کی دوری پر واقع ہے۔
ستارے کے گرد خاصے چھوٹے مداروں میں چار سیارے گردش کررہے ہیں جو سارے کے سارے ’’پتھریلے‘‘ ہیں لیکن جسامت میں زمین سے کچھ بڑے ہیں۔ ان ہی میں سے دو سیارے اتنے گرم ہیں کہ ان پر زندگی کی امید نہیں کی جاسکتی۔ البتہ دیگر 2 سیارے اپنے مرکزی ستارے کے گرد ایسے مقام پر ہیں جسے ’’قابلِ رہائش علاقہ‘‘ (habitable zone) بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی ان سیاروں کا درجہ حرارت اتنا ہے کہ وہاں پانی، مائع حالت میں موجود رہ سکتا ہے اور اس پانی میں زندگی بھی پروان چڑھ سکتی ہے۔
ان دونوں سیاروں کا اپنے مرکزی ستارے سے فاصلہ ہمارے نظامِ شمسی میں سورج اور عطارِد (Mercury) کے درمیانی فاصلے سے بھی کم ہے۔ اس کے باوجود ماہرین کا کہنا ہے کہ ان پر مائع پانی ہوسکتا ہے کیونکہ ان کا مرکزی ستارہ بھی خاصا کم گرم ہے جب کہ ان سیاروں کے قطر ہماری زمین کے مقابلے میں صرف 20 سے 50 فیصد زیادہ ہیں۔ ان میں سے ایک (K2-72c) کا ’’سال‘‘ صرف 15 زمینی دنوں جتنا ہوتا ہے جب کہ اس کا درجہ حرارت ہماری زمین سے 10 فیصد تک زیادہ ہوسکتا ہے۔ دوسرا سیارہ (K2-72e) جو اس سے کچھ زیادہ کچھ زیادہ دوری پر ہے، 24 زمینی دنوں میں اپنے مدار کا چکر پورا کرلیتا ہے اور اس کا ممکنہ درجہ حرارت، ہماری زمین کے اوسط سے چھ فیصد تک کم ہوسکتا ہے۔

ریشم کے کیڑے سے مکڑی کے جالے کی تیاری

اس تکنیک کو تجارتی پیمانے پر فروغ دینے کے لیے کریگ بایوکرافٹ لیبارٹریز کے نام سے کمپنی بھی قائم کرلی گئی۔ فوٹو؛ فائل
مشی گن: امریکا کی بایوٹیکنالوجی کمپنی نے ریشم کے کیڑوں کو اس قابل بنالیا ہے کہ وہ مکڑی کا ریشہ (اسپائیڈر سلک) تیار کرسکیں۔
مکڑی کا جالہ بظاہر بہت کمزور ہوتا ہے لیکن اس کا نہایت باریک ریشہ، اسی قدر باریک فولادی تار سے بھی زیادہ مضبوط اور لچکدار ہوتا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں اور ماہرین اس بارے میں گزشتہ کئی برسوں سے جانتے بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے چند عشروں سے مکڑی کا ریشہ صنعتی پیمانے پر تیار کرنے کی کوششیں جاری ہیں تاکہ اسے بلٹ پروف جیکٹوں میں استعمال کیا جاسکے۔ اس سلسلے میں کئی تجربات کیے گئے اور مکڑیوں کی فارمنگ تک کی گئی، لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا۔
ریشم کے کیڑوں کی طرح مکڑیوں کی فارمنگ کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں لیکن وہ سب کی سب بدترین ناکامیوں سے دوچار ہوئیں۔ علاوہ ازیں اگر کسی طرح یہ مشکل کام کر بھی لیا جائے تو مکڑیوں سے حاصل ہونے والا ریشہ (اسپائیڈر سلک) اس قدر باریک ہوگا کہ وہ بلٹ پروف جیکٹوں میں استعمال کے قابل نہیں ہوگا۔ 2011 میں یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم کے ماہرین کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے ریشم کے کیڑوں سے مکڑی کا ریشہ حاصل کرنے کا طریقہ ایجاد کرلیا۔
ماہرین نے سب سے پہلے مکڑی میں ریشہ بنانے والا جین دریافت کیا اور اگلے مرحلے میں اسے ریشم کے کیڑوں کے انڈوں میں پیوند کردیا۔ متعدد کوششوں کے بعد بالآخر وہ ریشم کے ایسے کیڑے تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے جو مکڑی کا ریشہ تیار کرتے تھے۔ اس تکنیک کو تجارتی پیمانے پر فروغ دینے کے لیے کریگ بایوکرافٹ لیبارٹریز کے نام سے کمپنی بھی قائم کرلی گئی۔
اس ادارے میں اگلے چند سال کے دوران ریشم کے ان کیڑوں کو اس قابل بنایا گیا کہ وہ زیادہ موٹائی والا مکڑی کا ریشہ تیار کرسکیں اور اسی بنیاد پر ان کی مختلف اقسام علیحدہ علیحدہ کردی گئیں۔ اب یہ کمپنی ’’ڈریگن سلک‘‘ کے نام سے مکڑی کے ریشے (اسپائیڈر سلک) کی پیداوار میں مصروف ہے۔ گزشتہ ہفتے امریکی فوج نے اس کمپنی کو ڈریگن سلک سے تیار شدہ آزمائشی تھیلیاں (بیلسٹک شوٹ پیکس) تیار کرنے کا آرڈر دیا ہے۔ اگر یہ تھیلیاں ٹیسٹ فائرنگ کے دوران اتنی ہی سخت جان ثابت ہوئیں کہ جس کا دعوی بایوکرافٹ نے کیا ہے تو اس کمپنی کو پہلی کھیپ کے لیے 10 لاکھ امریکی ڈالر کا ٹھیکا دے دیا جائے گا۔

دنیا بھر میں فائیو جی ٹیکنالوجی کی آزمائش کے حوالے سے پاکستان سب سے آگے

پاکستان میں فائیو جی ٹیکنالوجی کی آزمائش جلد ہی شروع ہونے والی ہے۔ (فوٹو: فائل)
اسلام آباد: پاکستان بہت جلد دنیا کے اُن چند ملکوں میں شامل ہونے والا ہے جہاں موبائل انٹرنیٹ کی جدید ترین فائیو جی ٹیکنالوجی سب سے پہلے آزمائی جائے گی۔ 
پاکستان کی ایک موبائل فون کمپنی پہلے ہی پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو یہ درخواست دے چکی ہے کہ اسے آزمائشی طور پر فائیو جی اسپیکٹرم استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔ یہ بھی شنید ہے کہ پی ٹی اے نے اس کی اجازت بھی دے دی ہے۔
فائیو جی ٹیکنالوجی 5 گیگاہرٹز اسپیکٹرم استعمال کرتی ہے جبکہ توقع کی جارہی ہے کہ اس سے موبائل کمیونی کیشن میں ڈیٹا ٹرانسمیشن کی ایک گیگابِٹس فی سیکنڈ یا اس سے بھی زیادہ کی غیرمعمولی رفتار حاصل کی جاسکے گی۔ تجرباتی مراحل سے گزرنے کے بعد، اب اس ٹیکنالوجی کو دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر استفادہ عام کےلئے متعارف کروانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔
اس بارے میں وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمان نے گزشتہ روز اسلام آباد میں ایک کانفرنس کے دوران بتایا کہ پاکستان میں 2020ء تک فائیو جی ٹیکنالوجی آجائے گی۔ وہ انٹرنیشنل ٹیلی کمیونی کیشن یونین (آئی ٹی یو) اور پی ٹی اے کے اشتراک سے منعقدہ ’’ایشیا پیسفک ریگولیٹرز راؤنڈ ٹیبل 2016ء‘‘ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کررہی تھیں۔ انہوں نے بھی تصدیق کی کہ پاکستان میں فائیو جی ٹیکنالوجی کی آزمائشیں شروع کرنے کےلئے یہاں کی ایک موبائل آپریٹر کمپنی نے تیزی سے کام شروع کردیا ہے اور ’’پاکستان اُن ملکوں میں شامل ہوگا جہاں فائیو جی ٹیکنالوجی سب سے پہلے آزمائی جائے گی۔‘‘ البتہ انہوں نے اس کمپنی کا نام بتانے سے گریز کیا۔

ان شاء اللہ صیح اسطرح لکھا جاتا ہے۔

*اسلام علیکم*    
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ
" ﺍﻧﺸﺎﺀ ﺍﻟﻠﮧ " ﻟﮑﮭﺎ ﺗﻮ کسی ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﮩﺎ ﻟﻔﻆ "ﺍﻧﺸﺎﺀﺍﻟﻠﮧ" ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﺑﻠﮑﮧ یه *" ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ "* ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ …
ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﻟﮓ الگ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﯿﮟ۔

ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮑﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺑﮩﺖ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮا-  ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﻠﻢ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻓﻼﮞ ﺳﻮﺭﮦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﻟﮑﮭﺎ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﺁﭖ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﮩﮧ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻏﻠﻂ ﮨﮯ- 

ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﺩﯼ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﺮﻭﮞ گا خور سے ﺗﺤﻘﯿﻖ کی تو ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺻﺎﺣﺐ ﺻﺤﯿﺢ ﻓﺮﻣﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ۔۔

ﻟﻔﻆ " ﺍﻧﺸﺎﺀ " ﺟﺴﮑﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ " ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ " ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮔﺮ " ﺍﻧﺸﺎﺀﺍﻟﻠﮧ " ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ " ﺍﻟﻠﮧ ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ " ( ﻧﻌﻮﺫﺑﺎ ﺍﻟﻠﮧ )

ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﺻﺎﻑ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻟﻔﻆ " ﺍﻧﺸﺎﺀ " ﮐﻮ ﻟﻔﻆ " ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮑﮭﻨﺎ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻏﻠﻂ ﮨﮯ-
ﺍﺳﮑﮯ ﻟﺌﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﯽ ﮐﭽﮫ ﺁﯾﺎﺕ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﻟﻔﻆ 
" ﺍﻧﺸﺎﺀ " ﺍﮐﯿﻼ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﻮﺍ ہے...

1. ﻭَﻫﻮَ ﺍﻟَّﺬِﯼ ﺃَﻧْﺸَﺄَ ﻟَﮑُﻢُ ﺍﻟﺴَّﻤْﻊَ ﻭَﺍﻟْﺄَﺑْﺼَﺎﺭَ ﻭَﺍﻟْﺄَﻓْﺌِﺪَۃَ ﻗَﻠِﯿﻠًﺎ ﻣَﺎ ﺗَﺸْﮑُﺮُﻭﻥَ – ( ﺍﻟﻤﻮﻣﻦ ) , 78

2. ﻗُﻞْ ﺳِﯿﺮُﻭﺍ ﻓِﯽ ﺍﻟْﺄَﺭْﺽِ ﻓَﺎﻧْﻈُﺮُﻭﺍ ﮐَﯿْﻒَ ﺑَﺪَﺃَ ﺍﻟْﺨَﻠْﻖَ ﺛُﻢَّ ﺍﻟﻠَّﻪ ﯾُﻨْﺸِﺊُ ﺍﻟﻨَّﺸْﺄَۃَ ﺍﻟْﺂَﺧِﺮَۃَ ﺇِﻥَّ ﺍﻟﻠَّﮧَ ﻋَﻠَﯽ ﮐُﻞِّ ﺷَﯽْﺀ ٍ ﻗَﺪِﯾﺮ , ـ ( ﺍﻟﻌﻨﮑﺒﻮﺕ ) 20

3. ﺇِﻧَّﺎ ﺃَﻧْﺸَﺄْﻧَﺎﻫﻦَّ ﺇِﻧْﺸَﺎﺀ ً – ( ﺍﻟﻮﺍﻗﻌﮧ ) , 35

ﺍﻥ ﺁﯾﺎﺕ ﺳﮯ ﺻﺎﻑ ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ " ﺍﻧﺸﺎﺀ " ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮩﯿﮟ " ﺍﻟﻠﮧ " ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﻟﻔﻆ ﺍﻟﮓ ﻣﻌﻨﯽ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ۔۔

ﻟﻔﻆ " ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ " ﺟﺴﮑﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ 
*" ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﭼﺎﮨﺎ "*

" ﺍﻥ " ﮐﺎ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﮯ " ﺍﮔﺮ "
" ﺷﺎﺀ " ﮐﺎ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﮯ " ﭼﺎﮨﺎ "
" ﺍﻟﻠﮧ " ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ " ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ "...

ﺗﻮ ﻟﻔﻆ *" ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ "* ﮨﯽ ﺩﺭﺳﺖ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﮐﭽﮫ ﺁﯾﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻭﺍﺿﺢ ﮨﮯ ۔۔

1. ﻭَﺇِﻧَّﺎ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﻟَﻤُﮩْﺘَﺪُﻭﻥَ – ( ﺍﻟﺒﻘﺮﮦ ) 70

2. ﻭَﻗَﺎﻝَ ﺍﺩْﺧُﻠُﻮﺍ ﻣِﺼْﺮَ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﺁَﻣِﻨِﯿﻦَ – ( ﯾﻮﺳﻒ ) 99

3. ﻗَﺎﻝَ ﺳَﺘَﺠِﺪُﻧِﯽ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﺻَﺎﺑِﺮًﺍ ﻭَﻟَﺎ ﺃَﻋْﺼِﯽ ﻟَﮏَ ﺃَﻣْﺮًﺍ – ( ﺍﻟﮑﮩﻒ ) 69

4. ﺳَﺘَﺠِﺪُﻧِﯽ ﺇِﻥْ ﺷَﺎﺀ َ ﺍﻟﻠَّﻪ ﻣِﻦَ ﺍﻟﺼَّﺎﻟِﺤِﯿﻦَ – ( ﺍﻟﻘﺼﺎﺹ ) 27

ﺍﻥ ﺁﯾﺎﺕ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻟﻔﻆ 
*" ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ "*
 ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ 
*" ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﭼﺎﮨﺎ "*
 ﺗﻮ ﺍسے ایسےھی ﻟﮑﮭﻨﺎ ﭘﺎﻟﮑﻞ ﺩﺭﺳﺖ ھو گا ۔۔

انگریزی میں یوں لکھ جا سکتا ھے..
*"In Sha Allah"*

صدقه جاریه کے طور پر اس معلومات کے پرچار کے ساتھ ساتھ دعاؤں کی بھی درخواست ھے..
*والسلام*