Quetta Earthquake 1935
It certainly lived on in the minds of the British community in India. Because Quetta was also home to the Staff College of the Indian Army, so that at any given time there were a lot of Burrah Sahibs (English Wives) running around the place, many of whom were victims.
The earthquake occurred at 02:33 am local time on 31 May 1935. The magnitude of this earthquake has been estimated at 7.7 based on geometric seismic moment. Ground deformation extended for 105 kilometres from the south side of the Chiltan range to Kalat, which was mostly in the form of 2-20 centimetre cracks. The ground on the western side of the cracks near Mastung was found to have risen on average up to 80 centimentres while in some places the earth was heaved up several metres. Near Mastung Road railway station the cracks ran across the Quetta-Nushki railway and deforming and offsetting the tracks vertically. These cracks indicate that the earthquake was associated with a zone of faults that run along the eastern edge of the Chiltan range extending southwards toward Mastung and Kalat.
The town of Quetta saw most of the fatalities and this earthquake has since been known as the Quetta Earthquake. The Civil Lines was completely destroyed and up to 15,000 people are thought to have perished here alone . The police lines, the durbar hall, the civil and mission hospitals and the club were ruined. A few reinforced concrete structures and the new railway quarters escaped with minor damage. The cantonment suffered much less damage, but a few buildings did collapse. That too was confined to a kilometre wide stretch that lay along the civil lines and the Durani Nallah, one of two watercourses that ran through the town. The fort was also damaged and many building collapsed. In the Royal Airforce Lines, the hangars at the airfield were all that were left standing though they were badly damaged. Every aircraft was rendered unsafe to fly. Piped water was not disrupted in Quetta and power supply carried on with a restricted load. Up to 26,000 people are believed to have been killed in Quetta alone and a few thousand bodies were left buried in the ruins. Most of the administration in Quetta was killed but troops from the military base organized rescue quickly. They evacuated survivors and cordoned off the town to prevent looting and the outbreak of epidemic as well as provided protection and salvaging property from destroyed structures. They also carried out mass burials or cremations of the dead. Letters written during that period by survivors contain vivid descriptions of the earthquake and its aftermath.
Friday, July 22, 2016
رجب طیب اردوغان نے ایسا کیا کام کیا ہے۔؟ جس کی ایک آواز سے پورے قوم نےاپناجان نچاورکیا
1 ) طیب اردگان کی آمد کے بعد ترکش اکانومی 2002 سے 2012 کے درمیان کی گروتھ 64% حقیقی جی ڈی پی میں اور 43% جی ڈی پی میں پر کیپیٹل اضافہ ہوا
2 ) طیب اردگان کی آمد سے قبل آئی ایم ایف کا ترکی پہ قرضہ 23.5 بلین ڈالر تھا، جو دوہزار بارہ میں 0.9 بلین ڈالر یعنی 900 کروڑ ڈالر رہ گیا، طیب اردگان نے فیصلہ کیا کہ ہم کوئی نیا قرضہ نہیں لیں گے ، کچھ ہی عرصہ میں یہ قرضہ بھی ختم ہوگیا، اور اعلان کیا کہ اب آئ ایم ایف ہم سے اپنے لئے قرضہ لے سکتا ہے، ( یعنی قرض لینے والے قرضہ دینے کے قابل ہوگئے)
3) ترکی کے حکومتی قرض یورپی یونین کے نو ممالک اور روس سے بھی کم ریکارڈ سطح 1.17% پہ ٹریڈنگ کررہے ہیں ،
4) 2002 میں ٹرکش سنٹرل بنک کے ریزرو 26.5 ارب ڈالر تھے ، جو اردگان کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے 2011 میں 92.2 بلین ڈالر تک پہنچ گئے ، اردگان کی پالیسیوں کی وجہ سے 2002 سے 2004 کے درمیان صرف دو سالوں میں افراط زر کی شرح 32% سے کم ہوکے 9% رہ گئی ،
5) اردگان کے دور حکومت میں ترکی میں 24 نئے ائیر پورٹ بنائے گئے، پہلے 26 ائیر پورٹ تھے اب 50 ہوچکے ہیں،
6) 2002 سے 2011 کے درمیان 13500 کلومیٹر ایکسپریس وے ( موٹروے ) بنائے گئے
7) ترکی کی تاریخ میں ہائی سپیڈ ٹرینوں کے لئے پہلی بار ہائی سپیڈ ریلوے لائنز بچھائی گئیں اور 2009 میں ان پہ پہلی بار ہائی سپیڈ ٹرینز ( 250.کلومیٹر فی گھنٹہ ) چلائی گئیں ، صرف آٹھ سالوں میں 1076 کلومیٹر نئی ریلوے لائنز بچھائی گئیں ، اور 5449 کلومیٹر ریلوے لائن کو رینیو کیا گیا ،
8) ملکی تاریخ میں پہلی بار صحت کے محکمہ میں اربوں ڈالر خرچ کئے گئے اور غریب عوام کے لئے مفت علاج معالجہ کے لئے مفت گرین کارڈ سکیم کا اجراء کیا گیا ،
9) 2002 میں تعلیم کے لئے 7.5 بلین لیرا ( ترک کرنسی ) مختص کی جاتی تھی ، اردگان نے 2011 تک رفتہ رفتہ اسے 34 بلین لیرا تک پہنچادیا، بجٹ کا سب سے بڑا حصہ وزارت تعلیم کے لئے مختص کردیا اور ملک میں 2002 میں 98 یونیورسٹیوں کی تعداد کو 2012 اکتوبر میں 186 یعنی تقریبا ڈبل کردیا ،
10) 1996 میں ترکی کرنسی لیرا ایک ڈالر کے 222 ملتے تھے ، اردگان کی معاشی اصلاحات کی وجہ سے اب 2016 میں ایک ڈالر کے 2.94 لیرا ملتے ہیں لیرا کی قدر وقیمت میں یہ اضافہ اتنا بڑا اضافہ ہے جس نے عالمی سامراج کی راتوں کی نیند اور دن کا چین اڑا رکھا ہے، یہ وہ وجوہات ہیں جن کی بناء پہ طیب اردگان کے خلاف بغاوت کروائی گئی.
Salute
ایک واقعہ جس نے گزشتہ 15 سال سے دنیا کو جہنم میں بدل کر رکھ دیا؟
اس سے پہلے کی دنیا اور اس کے بعد کی دنیا میں اس قدر فرق آیا ہے کہ دنیا بھر میں جرم کے معیارات اور مجرم کی شناخت کے پیمانے تک بدل گئے ہیں۔ دنیا بھر میں مشتبہ لوگوں کا حلیہ ہی بدل گیا ہے۔ دہشت گردی کی اصطلاح عام ہوئی تو دنیا کے کارپوریٹ سرمائے سے چلنے والے میڈیا نے دہشت گردوں کی نرسریوں سے لے کر ان کے اعتقادات‘ خیالات‘ علم حاصل کرنے کے مقامات اور آخر کار ان کے حلیوں تک کو ایسے پیش کیا جیسے ہر وہ شخص جو اسلام میں بظاہر دلچسپی لیتا ہو‘ داڑھی بڑھا لے‘ ٹخنوں سے اونچی شلوار کر لے‘ پانچ وقت نماز کے لیے قریبی مسجد کا رخ کرے‘ سر پر پگڑی‘ ٹوپی یا صافہ رکھ لے‘ تو ایسا شخص عین ممکن ہے دہشت گرد ہو یا پھر ایسے حلیے والے بہت سے لوگوں کے درمیان دہشت گرد چھپ سکتا ہے۔
گزشتہ پندرہ سال کی اس میڈیا جنگ نے آج پوری دنیا میں ظالم‘ دہشت گرد اور تخریب کار ایک ایسا چہرہ تسلیم کروا لیا ہے جو کبھی ایک تہجد گزار‘ اللہ کے دین پر عمل پیرا‘ دنیا کے طعنوں سے بے نیاز ایک ایسا لباس زیب تن کرنے والا تھا جو قرون وسطیٰ کے مسلمان پہنا کرتے تھے۔ اس لیے مجھے بالکل حیرت اور تعجب نہیں ہوا جب حکومت پنجاب نے پنجاب کے تعلیمی اداروں میں تبلیغی جماعت کے داخلے پر پابندی عائد کر دی۔ ایسے حلیے کے لوگ اس مغرب زدہ مخلوط تعلیمی اداروں میں کتنے برے لگتے ہیں۔ وہ سارے کا سارا تصور ہی پاش پاش ہو جاتا ہے جو ہم نے ’’سافٹ‘‘ پاکستان کا بنا رکھا ہے۔
تبلیغ پر تو ویسے بھی پابندی لگانی ہی چاہیے تھی۔ اس لیے کہ جس طرح ہم اسلام کو خوفناک بنا کر پیش کرتے ہیں‘ یہ لوگ تو بالکل اس کے الٹ ہیں۔ مسجد کے ایک کونے میں پڑے رہتے ہیں۔ عصر کے بعد لوگوں کے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں۔
ایک ان میں نظریں نیچی کیے میرے بھائی کے لفظ سے آغاز کرتا ہے۔ اور پھر کہتا ہے کہ میری اور آپ کی بھلائی پورے دین میں ہے۔ اور بات کا اختتام اس جملے پر ہوتا ہے کہ مغرب کے بعد مسجد میں اس سلسلے میں بیان ہو گا‘ آپ تشریف لائیے گا۔ گزشتہ پچاس سال سے میں ان کا یہ رویہ دیکھ رہا ہوں اور اس معاشرے کا رویہ بھی جو ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ کون ہے جو ان پر اپنے دروازے بند نہیں کرتا۔ انھیں تمسخر کا نشانہ نہیں بناتا۔ ان پر مغلظات نہیں بکتا۔ لیکن یہ بھی نجانے کس مٹی کے بنے ہوئے ہوتے ہیں کہ ایک دروازے سے گالیاں سن کر اگلے دروازے پر دستک ضرور دیتے ہیں۔
برصغیر پاک و ہند میں دو گروہ ایسے ہیں جنھوں نے مسلمانوں میں انا‘ غرور اور نفس کو کچلنے کی اس طرح ترغیب دی ہو۔ ایک اہل تصوف اور دوسرے تبلیغی جماعت کے لوگ۔ اہل تصوف تو کسی میں ذرا سا بھی غرور یا تکبر دیکھتے تو کشکول ہاتھ میں پکڑا دیتے کہ جاؤ بھیک مانگ کر لاؤ یا پھر جھاڑو پکڑا دیتے کہ تم خانقاہ کی صفائی پر مامور کر دیے گئے ہو۔ تبلیغی جماعت والوں نے بھی ضبط نفس کی جو تربیت پائی ہے اس پر حیرت ہوتی ہے۔
گریڈ بائیس کے بیوروکریٹ سے لے کر کروڑوں کمانے والے تاجر تک اور جسمانی طور پر دس لوگوں پر بھاری انسان تک سب کے سب اس طرح سر جھکائے لوگوں کو اللہ کی طرف بلا رہے ہوتے ہیں جیسے یہ اس شخص کے مجرم ہوں جسے دعوت دے رہے ہیں۔ کوئی ان کی ہنسی اڑائے‘ ان کی بات سننے سے انکار کرے‘ انھیں بے نقط سنائے‘ یہ خاموشی سے چپ چاپ اپنی راہ لیتے ہیں۔ ایسا رویہ اگر اسی طرح کے گریڈ بائیس کے افسر‘ کروڑ پتی تاجر یا جسمانی طور پر مضبوط شخص کے ساتھ عام زندگی میں کیا جائے تو اس کا نتیجہ انتہائی خوفناک نکلتا ہے۔
گیارہ ستمبر سے پہلے ان لوگوں کو بے ضرر سمجھا جاتا تھا۔ دفتر میں ان کو چار ماہ یا چِِلّے کے لیے چھٹی مانگنے پر دے دی جاتی تھی۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں خواہ وہ اسکینڈے نیویا کے ممالک کی طرح سیکس فری ملک کیوں نہ ہو‘ تبلیغی جماعت کے لوگوں کو کبھی ویزا کی مشکلات نہ ہوئیں۔ آسٹریلیا سے لے کر امریکا کے ساحلوں تک یہ لوگ آزادانہ تبلیغی کام کرتے تھے لیکن گیارہ ستمبر کے بعد صرف ان کے حلیے نے انھیں مشکوک کر دیا۔
یہ میڈیا کس قدر طاقتور چیز ہے۔ یہ پروپیگنڈہ کی مشنری کس قدر خوفناک ہے کہ جرم کوئی بھی کرے آپ مجرم جس کو چاہے ثابت کر دیں۔ گیارہ ستمبر کا واقعہ جن چودہ افراد نے کیا ان میں چار لیڈران جنھوں نے جہاز اغوا کیے ان کے حلیے اور حالات زندگی پر نظر ڈالتے ہیں۔ محمد الامیر السید عطا جس نے امریکن ایئر لائن کی فلائٹ نمبر11 کو اغوا کیا۔ ایک کلین شیو نوجوان جس نے قاہرہ یونیورسٹی سے آرکیٹیکٹ کی ڈگری حاصل کی اور پھر 1990ء میں جرمنی کی ٹیکنیکل یونیورسٹی ہیمبرگ میں اعلیٰ تعلیم کے لیے داخل ہوا۔
مروان یوسف محمد رشید لکراب شیحی۔ متحدہ عرب امارات سے انگلش میڈیم اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد فوج میں بھرتی ہوا۔ فوج سے وظیفہ لے کر اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی روانہ ہوا اور پہلے یونیورسٹی آف بون اور پھر ٹیکنیکل یونیورسٹی ہیمبرگ میں پڑھتا رہا۔ اس نے یونائیٹڈ ایئر لائن کی پرواز اغوا کی۔ ہانی صالح حسن حنجور‘ ایریزونا یونیورسٹی امریکا میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس نے سیرا اکیڈیمی Sierra Acadmy of Aeronotics میں کورس مکمل کیا۔ اس نے یونائٹیڈ ائر لائن کی پرواز 175 کو اغوا کیا۔ زیاد سمیر جراح لبنان کے شہر بیروت سے 1996ء میں جرمنی کی یونیورسٹی GREIFSWALD میں جرمنی زبان سیکھنے کے لیے داخل ہوا اور پھر ہمبرگ کی یونیورسٹی فار اپلائڈ سائنسز Applied Sciences میں تعلیم حاصل کرتا رہا۔ یہ وہ چار لوگ تھے جنھوں نے باقی دس لوگوں کے ساتھ مل کر جہاز اغوا کیے اور گیارہ ستمبر کا معرکہ برپا کیا۔
ان میں سے کوئی ایک بھی کسی مدرسے کا پڑھا لکھا نہیں تھا جنھیں آج کا میڈیا جہاد کی نرسریاں بتایا جاتا ہے۔ سب کے سب سیکولر مغربی تعلیمی اداروں میں پڑھ کر نکلے تھے۔ ان میں کسی کا حلیہ بھی ویسا نہ تھا جیسا آج دہشت گردوں کا بنا کرپیش کیا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ القاعدہ کی پوری کی پوری قیادت کو اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو کوئی بھی کسی مدرسہ کا فارغ التحصیل نہیں ملے گا۔ خود اسامہ بن لادن مغربی طرز پر قائم یونیورسٹی میں پہلے انجینئرنگ اور پھر اسلامیات کی ڈگری حاصل کرنے والا‘ ایمن الظواہری میڈیکل کالج سے میڈیسن کی ڈگری لیے ہوئے‘ خالد شیخ محمد جسے انتہائی خطرناک بنا پر پیش کیا جاتا ہے‘ پہلے یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا میں پڑھتا رہا اور پھر اس نے پنجاب یونیورسٹی سے اسلامیات کی ڈگری حاصل کی۔
رمزی یوسف کویت سے پڑھائی کے لیے نکلااور مشہور عام سوانسا Swansaانسٹیٹیوٹ سے الیکٹریکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کر کے لوٹا۔ یہ تو وہ لوگ تھے جنھوں نے گیارہ ستمبر برپا کیا یا القاعدہ قائم کی۔ آج اس وقت وہ لوگ جو ہزاروںکی تعداد میں یورپ کے ممالک سے شام میں جا کر لڑ رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس نے کسی مدرسے سے تعلیم حاصل کی ہو۔ پورا یورپ حیران ہے کہ یہ ڈاکٹرز‘ انجینئرز‘ سائنس اور فلسفہ کی تعلیم حاصل کرنے والے‘ جدید سیکولر نظام تعلیم میں پلے بڑھے‘ انھیں کس بات نے مجبور کیا کہ یہ شام میں لڑنے والے گروہوں کے ساتھ شامل ہو گئے۔ لیکن کمال ہے اس میڈیا کا جس کی طنابیں اس کارپوریٹ انڈسٹری کے ہاتھ میں ہیں جو اس دنیا کو پرامن دیکھنا نہیں چاہتی۔ اس دنیا میں جتنے میدان جنگ ہوں گے ان کا اسلحہ اتنا ہی بکے گا۔ لوگ جس قدر خوفزدہ ہوں گے ان کے سامان کی اتنی ہی کھپت ہو گی۔
انھوں نے خوبصورت زندگی کا ایک تصور میڈیا پر پیش کیا ہے‘ مخلوط ماحول‘ ساحل سمندر پر نیم برہنہ زندگی‘ نائٹ کلب‘ بڑی بڑی عمارتیں‘ تیز رفتار ٹریفک‘ محبت کی کہانیاں‘ فیشن شوز‘ فلم کی دنیا اور اعلیٰ تعلیمی درس گاہیں۔ وہ اس خوبصورت زندگی کو جسے وہ لائف اسٹائل کہتے ہیں زندہ رکھنا چاہتے ہیں تا کہ ان کا مال بکتا رہے میک اپ سے لے کر برگر تک اور اس کے برعکس ایسا لائف اسٹائل جس میں کچا کمرہ‘ سوکھی روٹی‘ پیوند لگے کپڑے اور قناعت کا سامان ہو، وہ انھیں زہر لگتا ہے۔
اس لیے خواہ سارے کے سارے دہشت گرد اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں کے پڑھے لکھے ہوں‘ گالی مدرسے کو پڑے گی‘ دہشت گرد داڑھی اور پگڑی والا ہی ہو گا اور پابندی تبلیغ کرنیوالوں پر ہی لگے گی ، خواہ ان جیسا مرنجا ن مرنج اور ضبط نفس والا کوئی اور ذی نفس دنیا میں نہ ہو۔ جس بازار میں جھوٹ اور منافقت کی چکا چوند ہو وہاں پنجاب حکومت کی آنکھیں چندھیا جائیں تو کچھ عجب نہیں۔ اکبر اللہ آبادی یاد آتے ہیں۔
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
(اوریا مقبول جان)
Subscribe to:
Posts (Atom)