The Daily Mail Urdu

Sunday, July 17, 2016

باب الاسلام سے "موئن جو دڙو" تک !



سندھی زبان میں "موئن" کا مطلب "مردے" اور "دڑو" کا مطلب "ٹیلہ" جبکہ "جو" "کا" کے لئے استعمال ہوتا ہے اس طرح لفظ بنتا ہے "مردوں کا ٹیلہ"

یہ سندھ کی قدیم ترین تہذیب ہے جو ٢٦٠٠ قبل از مسیح کا زمانہ ہے ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ ٣٠٠٠٠ ہزار کی آبادی والا یہ شہر جدید ڈسٹرکٹ لاڑکانہ میں واقع تھا ١٩٢٢ میں ایک ہندوستانی تاریخ دان اور محقق آر ڈی بنجیری (Rakhaldas Bandyopadhyay (Bengali: রাখালদাস বন্দোপাধ্যায়) نے دریافت کیا ......

ان کی تباہی کی کوئی معقول وجہ آج تک بیان نہیں کی جا سکی یہاں سے نکلنے والے مجسمے یہ بتاتے ہیں کہ یہ قوم بت پرست تھی اس قوم کی ایک خاص بات انکا آبپاشی کا نظام ہے
یہاں کنووں کا ایک باقائدہ نظام تھا موجود تھا جسکے ذریعہ پانی کو جمع کیا جاتا تھا عظیم حمام انکی خاص عبادت کا حصہ تھا جہاں مرد و عورت غسل کرتے تھے .
عظیم کنواں انکی خاص نشانی ہے (http://www.mohenjodaro.net/wellindus76.html) جو سینکڑوں چھوٹے کنووں تک پانی پہچانے کا بنیادی منبع تھا ...

قرآن کریم اور اسلامی تاریخ کے مطالعہ سے ایک عجیب انکشاف ہوا کہ اسلامی مصادر میں بھی ایک قوم کا تذکرہ ملتا ہے جنکی خاص علامت کنواں ہی تھا یعنی " اصحاب الرس "
قال تعالى في سورة الفرقان :

(( وَعَادًا وَثَمُودَ وَأَصْحَابَ الرَّسِّ وَقُرُونًا بَيْنَ ذَلِكَ كَثِيرًا )).

وقال تعالى في سورة ق:

(( كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَأَصْحَابُ الرَّسِّ وَثَمُودُ ))

قصص القرآن میں ایک عجیب واقعہ پڑھنے کو ملا

لغت میں رس کے معنی پرانے کنویں کے ہیں اور اصحاب الرس کے معنی ہوے کنوے والے

ابو بکر بن عمر بن حسن نقاش اور سہیلی کہتے ہیں اصحاب الرس کی بستی میں ایک بہت بڑا کنواں تھا جسکے پانی سے وہ پیتے اور اپنی کھیتیاں سیراب کرتے تھے اس بستی کا بادشاہ بہت عادل تھا اور لوگ اس سے بہت محبت کرتے تھے جب اس بادشاہ کا انتقال ہوا تو لوگ بہت غمگین ہوے ایک دن ایک سرکش شیطان اس بادشاہ کی شکل میں پہنچا اور کہنے لگا میں وقتی طور پر تم لوگوں سے دور ہوا تھا اور اب میں واپس آ گیا ہوں اور ہمیشہ زندہ رہونگا لوگ بہت خوش ہوے اور ایک عظیم جشن کا انتظام کیا اس فسٹیول کے بعد اس شیطان نے ان پر حکومت شروع کر دی اور ان لوگوں کو عیش و عشرت اور بت پرستی پر ڈال دیا .

کہتے ہیں ان لوگوں میں حنظلہ بن صفوان نامی نبی مبعوث کیے گئے جنہوں نے ان لوگوں پر دین کی دعوت پیش کی لیکن وہ لوگ شیطان کی پیروی میں اندھے ہو چکے تھے اور انہوں نے اس پیغمبر کو قتل کر دیا اور ان پر الله کا عذاب نازل ہوا تفسیر ابن کثیر سوره فرقان (البدایہ و النہایہ ١)

کچھ اور روایات میں ملتا ہے کہ ان پیغمبر کو ایک بڑے کنویں میں قید کر دیا گیا تھا اسی طرح ابن ابی حاتم کی روایت میں آتا ہے کہ اس قوم نے اپنے نبی کو کنویں میں دفن کر دیا تھا ...

آج کوئی بھی مکمل استحقاق سے نہیں کہ سکتا کہ "موئن جو دڙو" والے کون لوگ تھے اسی طرح اصحاب الرس کی باقاعدہ شناخت بھی ممکن نہیں لیکن دونوں کے مشترکات بیشمار ہیں
عظیم کنووں کا نظام
بت پرستی
خوشحالی کے بعد اچانک تباہی

محققین کیلئے میدان کھلا ہے کہ مزید تحقیق کرکے معاملے کی حقیقت کو واضح کیا جائے
(حصہ دوئم)
۴-موئن جو دڑو
موئن جو دڑو (سندھی:موئن جو دڙو اور اردو میں عموماً موہنجوداڑو بھی) وادی سندھ کی قدیم تہذیب کا ایک مرکز تھا۔ یہ لاڑکانہ سے بیس کلومیٹر دور اور سکھر سے 80 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے۔ یہ وادی سندھ کے ایک اور اہم مرکز ہڑپہ سے 400 میل دور ہے یہ شہر 2600 قبل مسیح موجود تھا اور 1700 قبل مسیح میں نامعلوم وجوہات کی بناء پر ختم ہوگیا۔ تاہم ماہرین کے خیال میں دریائے سندھ کے رخ کی تبدیلی، سیلاب، بیرونی حملہ آور یا زلزلہ اہم وجوہات ہوسکتی ہیں۔موئن جو دڑو کو 1922ء میں برطانوی ماہر آثار قدیمہ سر جان مارشل نے دریافت کیا اور ان کی گاڑی آج بھی موئن جو دڑو کے عجائب خانے کی زینت ہے۔لیکن ایک مکتبہ فکر ایسا بھی ہے جو اس تاثر کو غلط سمجھتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اسے غیر منقسم ہندوستان کے ماہر آثار قدیمہ آر کے بھنڈر نے 1911ء میں دریافت کیا تھا۔ موئن جو دڑو کنزرویشن سیل کے سابق ڈائریکٹر حاکم شاہ بخاری کا کہنا ہے کہ"آر کے بھنڈر نے بدھ مت کے مقامِ مقدس کی حیثیت سے اس جگہ کی تاریخی حیثیت کی جانب توجہ مبذول کروائی، جس کے لگ بھگ ایک عشرے بعد سر جان مارشل یہاں آئے اور انہوں نے اس جگہ کھدائی شروع کروائی۔"موئن جو دڑو سندھی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب مُردوں کا ٹیلہ ہے۔ یہ شہر بڑی ترتیب سے بسا ہوا تھا۔ اس شہر کی گلیاں کھلی اور سیدھی تھیں اور پانی کی نکاسی کا مناسب انتظام تھا۔ اندازاً اس میں 35000 کے قریب لوگ رہائش پذیر تھے۔ ماہرین کے مطابق یہ شہر 7 مرتبہ اجڑا اور دوبارہ بسایا گیا جس کی اہم ترین وجہ دریائے سندھ کا سیلاب تھا۔ یہ شہر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس و ثقافت یونیسکو کی جانب سے عالمی ورثہ قرار دیے گئے مقامات میں شامل ہے

No comments:

Post a Comment