The Daily Mail Urdu

Tuesday, July 19, 2016

جادوگر اور کاہن کی حقیقت

جادوگر اور کاہن کی حقیقت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ آسمان پر کسی چیز کا فیصلہ فرماتا ہے تو فرشتے اللہ تعالیٰ کی بات کے خوف سے بازومارتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی وہ بات زنجیر کی مانند ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ آسمان پر کسی چیز کا فیصلہ فرماتا ہے تو فرشتے اللہ تعالیٰ کی بات کے خوف سے بازومارتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی وہ بات زنجیر کی مانند ہے جس کو صاف پتھر پر کھینچا جائے ۔ جب خوف ان کے دلوں سے دور کیا جاتا ہے تو آپس میں پوچھتے ہیں تمھارے پروردگار نے کیا کہا ہے ؟ فرشتے اس چیز کو جو کہا ہوتا ہے دہراتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ اس نے حق کہا اور وہ بلند قدر اور بلند مرتبہ ہے ۔ اس کو چوری سننے والے سن لیتے ہیں اور چوری سننے والے اس طرح اوپر تلے ہوتے ہیں ۔ سفیان نے اس کی ہیئت بیان کرتے ہوئے اپنے ہاتھ کو ٹیٹرھا کیا اور انگلیوں کے درمیان فرق کیا ۔ شیطان بات سن کر نیچے والے کو بتاتا ہے ۔ دوسرااس سے نیچے والے کو یہاں تک نیچے والا جادوگر یا کا ہن کے کان میں ڈالتا ہے ۔ بعض اوقات سننے سے پہلے ہی اس کو شعلہ پالیتا ہے اور بعض اوقات شعلہ لگنے سے پہلے وہ بات ڈال دیتا ہے ۔ اس کے ساتھ وہ جھوٹ ملاتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ فلاں دن اس نے ہمیں اس طرح بات نہیں کہی تھی ۔ اس بات کی وحی سے جو آسمان سے کہی گئی ہوتی ہے تصدیق کی جاتی ہے ۔

نرم، شفیق اور حلیم ہستی ماں

نرم، شفیق اور حلیم ہستی ماں
رب کائنات کا ابن آدم کیلئے انمول تحفہ ماں خالق کائنات کی خوبصورت ترین تخلیق اور ابن ِ آدم علیہ السلام کے لیے رب کائنات کا سب سے انمول تحفہ ہے۔ماں کا لفظ ادا کرتے ہی منہ میں شرینی سی گھل جاتی ہے اور دماغ میں ایک نرم، شفیق اور حلیم ہستی کا تصور ابھرتا ہے

محمد اسحاق جیلانی:
ماں خالق کائنات کی خوبصورت ترین تخلیق اور ابن ِ آدم علیہ السلام کے لیے رب کائنات کا سب سے انمول تحفہ ہے۔ ماں کا لفظ ادا کرتے ہی منہ میں شرینی سی گھل جاتی ہے اور دماغ میں ایک نرم، شفیق اور حلیم ہستی کا تصور ابھرتا ہے۔ ماں کی محبت ، بے پناہ شفقت و ہمدردی اور جان نثاری کی بدولت بچہ زندگی کے کٹھن سفر کا آغاز نہایت آرام و سکون کے ساتھ کرتا ہے۔ مغربی مفکرین بھی ماں کی حرمت اور عظمت کا اعتراف ہر دور میں کرتے رہے ہیں لیکن موجود ہ مغربی معاشرے میں ان مقدس رشتوں کو دنوں میں قید کرنے کی روایت جس طرح جڑ پکڑ رہی ہے اسکی مثال ہر سال منایا جانے والا ”مدرز ڈے“ ہے اور صد افسوس کہ آج مغربی تہذیب کی اندھا دھند تقلید میں یہ روایت ہم نے بھی اپنا لی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ماں جیسی عظیم ہستی کی محبت اور اس کی ممتا کی قربانیوں کا صلہ بس اتنا ہی ہے کہ سال کا ایک دن اس انمول ہستی کے نام کر دیا جائے۔ کیا ماں کی محبت سال کے 365 دنوں میں صرف ایک دن کی محتاج ہے ؟ آج مغرب کی نقالی میں ہم مدرز ڈے منانے چلے ہیں، آئیے ذرا دیکھیں کہ ہمارا مذہب اسلام ہمیں ماں کے تقدس اور عظمت کے بارے میں کیا درس دیتا ہے۔
ارشاد نبوی ﷺ ہے ”بے شک اے لوگو! بہشت تمہاری ماوٴں کے قدموں تلے ہے“۔ مندرجہ بالا حدیث نبوی ﷺ میں ماں کے قدموں تلے جنت رکھ کر اس عظیم ہستی کے مقام و مرتبے کا تعین کر دیا گیا ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی تمام مسلمانوں کے لیے لازم ہے۔ آپ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ اگر تمہاری ماں عبادت گزار ہے ،نماز، روزہ، زکوٰة کی پابند ہے یا اس نے حج کیا ہے تو تب ہی اس کے پاوٴں تلے جنت ہے بلکہ آپ نے بلا تخصیص ارشاد فرمایا ہے کہ ”جنت تمہاری ماوٴں کے قدموں تلے ہے“۔ کسی کی ماں خواہ عبادت گزار نہ بھی ہو تو بھی اسکی جنت ماں کے قدموں میں ہی ہے۔ والدین کی عزت ، خدت، و اطاعت اور تابع فرمانی کے سلسلے میں تمام شریعتوں میں واضح احکامات موجود ہیں اور ماں باپ کا درجہ اللہ تعالیٰ کے بعد انسانی رشتوں میں سب سے بڑا بتایا گیا ہے ، اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی اطاعت کے بعد ان کی اطاعت کی بھی واضح تاکید موجود ہے ۔ حضرت موسیٰ سے منسوب ایک واقعہ مان کی دعا اور خدمت کا احساس دلاتا ہے۔
ایک مرتبہ کوہ طور پر آپ نے خدا تعالیٰ سے دریافت فرمایا کہ ”اے رب ذوالجلال مجھے بتا کہ جنت میں میرا ساتھی کون ہو گا؟ حق تعالیٰ کی طرف سے صدا آئی”فلاں علاقہ میں ایک قصاب ہے وہی جنت میں تیرا ساتھی ہوگا“۔ یہ سن کرحضرت موسیٰ کے دل میں اسے دیکھنے کی خواہش ہوئی چنانچہ آپ سفر کر کے منزل مقصود پر پہنچ گے اور قصاب کو اپنی دکان بر بیٹھا پایا۔ آپ نے اس سے کہا میں آج تیرا مہمان ہوں اس نے کہا بیٹھ جائیں۔ آپ اس کے قریب بیٹھ گئے اور اس کی حرکات و سکنات کا بغور مطالعہ کرنے لگے تا کہ ی جان سکیں کہ اس کا وہ کون سا پسندیدہ اور مقبول عمل ہے جس نے اسے اتنی بلندیوں پر پہنچایا ہے۔ شام کے وقت وہ آپ کو اپنے گھر لے گیا، آپ نے دیکھا کہ قصاب کی والدہ نابینا ہیں، ہاتھ پاوٴں کام نہیں کرتے سارے دانت ٹوٹ چکے ہیں۔ الغرض وہ سراپا ضعف، ناتوانی اور کمزوری کی حالت میں تھیں۔ سب سے پہلے قصاب نے اپنی والدہ کا ہاتھ منہ دھلایا، بال سنوارے اور پھر نہایت ہی نرم گوشت پکایا اور اسے اپنے ہاتھوں سے مل مل کر خود اپنی والدہ کو کھلایا۔ کھانا کھانے سے فارغ ہو کر اسکی والدہ نے اپنے رب کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھائے اور صدق دل سے یہ دعا کی کہ اے اللہ ! میرے بیٹے کو جنت میں حضرت موسیٰ کا ہم نشین بنا۔ اس بوڑھی عورت کے ان الفاظ کو سن کر آپ کو حقیقت حال کا علم ہوا کہ اس کا بلندو بالا مرتبہ صرف اسکی ماں کی دعاوٴں کا نتیجہ ہے۔ اللہ رب العزت کے نزدیک والدین کی ذات پر خرچ کرنا پسندیدہ اعمال میں سے ہے۔ سورة البقرہ میں ارشادِ ربانی ہوتا ہے۔ترجمہ ”آپﷺسے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں کہہ دو جو کچھ بھی اچھے مال سے خرچ کرو پس وہ والدین کے لیے ہے۔“

فتح مکہ اور خطبہ نبویﷺ

فتح مکہ اور خطبہ نبویﷺ
۶ہجری میں صلح حدیبیہ ہوئی۔ قریش دو سال تک صلح حدیبیہ کی شرائط پر عمل کرتے رہے لیکن اس کے بعد خلاف ورزی شروع کردی۔ انھوں نے اپنے حلیف قبیلہ بنوبکر کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے حلیف قبیلہ خزاعہ پر حملہ کردیا جو معاہد حدیبیہ کی سنگین خلاف ورزی تھی۔
سید نصیرالدین احمد:
۶ہجری میں صلح حدیبیہ ہوئی۔ قریش دو سال تک صلح حدیبیہ کی شرائط پر عمل کرتے رہے لیکن اس کے بعد خلاف ورزی شروع کردی۔ انھوں نے اپنے حلیف قبیلہ بنوبکر کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے حلیف قبیلہ خزاعہ پر حملہ کردیا جو معاہد حدیبیہ کی سنگین خلاف ورزی تھی۔ اس مسئلہ کو سفارتی سطح پر حل کرنے کی خاطر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے پاس اپنا سفیر بھیجا اور تین شرائط پیش کیں کہ ان میں سے کوئی ایک منظور کی جائے۔ (۱) مقتولوں کا خون بہا دیا جائے (۲) قریش فوراً بنوبکر کی حمایت سے الگ ہوجائیں اور (۳) معاہد حدیبیہ کے ٹوٹ جانے کا اعلان کردیا جائے۔ قریش نے تیسری شرط منظور کرلی اور تنسیخ معاہدہ کا اعلان بھی کردیا۔ بعد میں اپنی اس غلطی کے نتائج پر وہ سخت نادم ہوئے۔ انھوں نے تجدید معاہدہ کی خاطر ابوسفیان کو اپنا سفیر بناکر مدینہ بھیجا، لیکن وہ نااْمید واپس ہوئے۔ 10رمضان ۸ ہجری کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار مجاہدین کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ قریش کو مسلمانوں کے لشکر کی اطلاع ملی تو حیران رہ گئے۔ انھوں نے پھر ابوسفیان، بدیل بن ورقا اور حکیم بن حزام کو بھیجا۔ ابوسفیان پکڑ لئے گئے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے انھیں پناہ دی اور کہا کہ اِسلام قبول کرلے، ورنہ لوگ ابھی تیری گردن اڑادیں گے۔ ابوسفیان نے اسی وقت اسلام قبول کرلیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں معاف کردیا۔
لشکر اسلام کو مکہ کی طرف پیش قدمی کا حکم دینے سے پہلے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر قریش میں اعلان کروادیا کہ جو شخص ہتھیار ڈال دے گا یا ابوسفیان کے ہاں پناہ لے گا یا گھر کا دروازہ بند کرلے گا یا خانہ کعبہ میں داخل ہوجائے گا، اْسے معاف کردیا جائے گا۔ یہ عام معافی کا اعلان تھا جس کا خاطر خواہ اثر ہوا۔20رمضان ۸ہجری کو مسلمانوں نے بِلامقابلہ مکہ فتح کرلیا اور قریش کی مزاحمت کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب حرم کعبہ میں داخل ہوئے تو عصا کی نوک سے ایک ایک بت کو ٹھوکا دیتے جاتے اور ساتھ ساتھ یہ پڑھتے جاتے۔۔۔ ”جاء الحق وزہق الباطل ان الباطل کان زہوقا“۔ یعنی ”حق آگیا اور باطل نابود ہوگیا، بے شک باطل نابود ہونے والا ہے“۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا دروازہ کھلوایا۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اندر داخل ہوئے، تکبیریں کہی اور نماز پڑھی۔
فتح مکہ کے بعد مسلمان عملاً عرب کے حکمراں بن چکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اب قیصر و کسریٰ کے استحصالی معاشرے تھے جن کی بنیادوں میں اِنقلاب لاکر ان کی تعمیر نو کرنا تھا۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد جو خطبہ ارشاد فرمایا، اس میں خطاب اہل مکہ سے نہیں، سب افراد نسل انسانی سے تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ کے سوا اور کوئی الٰہ نہیں ہے۔ وہ ایک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اس نے اپنا وعدہ سچا کیا اور اپنے بندہ کی مدد کی اور تمام جتھوں (جماعتوں) کو تنہا چھوڑ دیا۔ خبردار! ہر قسم کا مطالبہ خواہ وہ خون کا مطالبہ ہو یا مال کا۔ میرے پاوٴں کے نیچے ہے (یعنی منسوخ اور ممنوع ہے)۔ البتہ بیت اللہ کی تولیت یاد ربانی اور حاجیوں کو پانی پلانے کے مناصب مستثنیٰ، یعنی جوں کے توں ہیں۔ اے گروہ قریش! آج کے دن اللہ نے تم سے جاہلیت کا غرور چھین لیا اور آباء و اجداد کے بل پر بڑائی حرام کردی۔ کل بنی نوع انسان آدم کی نسل سے ہیں اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ حجرات کی آیت تلاوت فرمائی۔ لوگو! ہم نے تم کو مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کی شناخت کرو۔ بے شک، اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ متقی ہے۔ بلاشبہ اللہ سب کچھ جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے“۔
خطبہ ختم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ سے فرمایا۔ ”تم جانتے ہو کہ میں تم سے کیا سلوک کرنے والا ہوں“۔ قریش کو اپنے مظالم کا احساس تو تھا، لیکن رحمتہ للعالمین کے رحم و کرم اور عفو و درگزر کا شعور بھی تھا۔ ایک زبان ہوکر بول اٹھے۔ ”آپ بخشش و کرم کرنے والے بھائی اور بخشش و کرم کرنے والے بھائی کے بیٹے ہیں“۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برملا اعلان فرمایا: ”آج تم پر کوئی مواخذہ نہیں۔ جاوٴ، تم سب آزاد ہو“۔ تاریخ عالم میں اس کمال حْسن سلوک کی کوئی مثال نہیں مل سکے گی۔ یہ عفو عام ان لوگوں کے لئے تھا جو اکیس سال تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرووٴں کے خلاف اذیتوں، دْکھوں اور مصیبتوں کے وہ تمام طوفان برپا کرتے رہے تھے جو ان کے بس میں تھے۔ ان کی تلواریں، ان کی برچھیاں، ان کے تیر مسلسل آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں پر برستے رہے تھے۔
اس عفو عام کے بعد جب اذان کا وقت آیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دیں، اللہ کے گھر پر چڑھ کر اللہ کی توحید کا اعلان کریں۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اس کی تعمیل کی۔ اس بات سے نخوت پرست اشراف قریش کو سخت ناگواری ہوئی۔ ان کے نزدیک قریش اور کعبہ کی یہ سخت توہین تھی۔ اختلاف کی ہمت تو نہیں ہوئی، مگر پھر بھی دِل کی بات زبان پر آہی گئی۔ غیرت سے مشتعل ہوکر کسی نے کہا ”خدا نے میرے باپ کی عزت رکھ لی کہ اس آواز کے سننے سے پہلے ان کو دنیا سے اٹھالیا“۔ ایک اور سردار قریش نے کہا ”اب جینا بیکار ہے“۔ ایک اور شخص نے کہا ”محمدﷺ کو اس کالے کلوٹے کے سوا کوئی دوسرا نہیں ملا تھا؟“
فتح مکہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود حقیقی اہل مکہ کے دِلوں کی تسخیر تھا۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل مکہ کو تحریک اسلام میں شریک کرنے کی خاطر مقام صفا پر تشریف لے گئے اور ایک بلند جگہ پر لوگوں سے بیعت لینے کا سلسلہ شروع کردیا۔ مردوں کے بعد عورتوں سے بیعت لی۔ عورتوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت اس طرح لی کہ ان سے ارکان اسلام اور محاسن اخلاق کا اقرار لیتے تھے۔ پھر پانی کے ایک بھرے ہوئے پیالہ میں دست مبارک ڈال کر نکال لیتے تھے۔ پھر عورتیں اس میں ہاتھ ڈال کر نکال لیتیں۔ لوگ جوق دَر جوق اسلام میں داخل ہورہے تھے۔ حق کی فتح اور تسخیر قلوب کا یہ منظر بڑا ہی روح پرور و بصیرت افروز تھا، لیکن شقی القلب لوگوں کے لئے یہ نظارہ انتہائی روح فرسا تھا اور وہ غصہ کی آگ میں جل رہے تھے۔
کچھ روٴسائے مکہ خوف کے مارے بھاگ گئے تھے۔ انھیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امان دی۔ یہ بات بے حد اہم اور قابل غور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی اور مسلمان نے کسی شخص کو اسلام میں شامل ہونے پر مجبور نہیں کیا۔ سب نے اسلام کے اصول ”لااکراہ فی الدین“ پر سختی سے عمل کیا۔ چنانچہ جن لوگوں نے اسلام قبول نہیں کیا، ان کی آزادی جان و مال اور حقوق شہریت سے کسی قسم کا کوئی تعرض نہیں کیا۔ مکہ معظمہ کا نظم و نسق درست کرنے اور تحریک اسلام کو جاری رکھنے کا اہتمام کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے گئے اور ان دونوں اْمور کی نگرانی کے فرائض حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو تفویض ہوئے۔
قریش تحریک اسلام کے اولین دشمن تھے اور انھوں نے اس کو اپنے وقار و حمیت کا مسئلہ بنالیا تھا، لیکن اس کے باوجود ان کا مسلمانوں کے خلاف ہتھیار نہ اْٹھانا اور بِلامزاحمت مکہ معظمہ اور بیت اللہ کو ان کے حوالے کردینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا کارنامہ ہے جس کی مثال تاریخ شاید ہی پیش کرسکے۔ یہ تاریخ ساز واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بے مثال تدبر و منصوبہ بندی میں مہارت پر دلالت کرتا ہے۔

آستین میں پنکھا لگائیں، پسینے سے نجات پائیں!

ننھے پنکھے کو پلاسٹک کی کیسنگ میں بند کیا گیا ہے فوٹو : فائل
اگر آپ سے پوچھا جائے کہ دنیا بھر میں سب سے سستی مصنوعات کس ملک میں تیار ہوتی ہیں ؟ تو یقیناً آپ کا جواب ہوگا، چین۔ اب اگر یہ سوال کیا جائے؛ عجیب و غریب اور اوٹ پٹانگ مصنوعات کس ملک میں بنائی جاتی ہیں؟ ممکن ہے اس سوال پر آپ اُلجھن کا شکار ہوجائیں کیوں کہ جاپان کی اس وجۂ شہرت سے بیشتر پاکستانی لاعلم ہیں۔ جی ہاں، جاپان جہاں اپنی مثالی ترقی، بالخصوص سائنس وٹیکنالوجی، الیکٹرونکس، کار سازی اور روبوٹ سازی کے میدان میں ترقی کے لیے جانا جاتا ہے، وہیں اب جاپانی کمپنیاں عجیب وغریب مصنوعات بناکر اس کی شہرت کے اسباب میں اضافہ کررہی ہیں۔
جاپان میں متعدد کمپنیاں قائم ہوچکی ہیں جن کا مقصد ہی روزمرّہ استعمال کے لیے انوکھی، منفرد ، عجیب وغریب اشیاء بنانا ہے۔ ان میں سے بیشتر چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں جان کر دیگر ممالک کے لوگ حیران ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ یہ ننھا سا پنکھا انوکھی ایجادات کی فہرست میں تازہ اضافہ ہے۔
وطن عزیز میں گرمی اور بارش کی آنکھ مچولی جاری ہے۔ کبھی مون سون کی بارش گرمی کا زور توڑ دیتی ہے تو کبھی پھر سورج کی تپش جُھلسانے لگتی ہے۔ گرمی اور پسینے کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ درجۂ حرارت بڑھتے ہی جسم پر پسینہ نمودار ہونے لگتا ہے۔ پسینے کی ناگوار بُو جہاں خود انسان کو پریشان کرتی ہے وہیں بعض اوقات اس کی وجہ سے اسے دوسروں کے سامنے شرمندگی بھی اٹھانی پڑتی ہے۔ پسینے کے باعث انسان کی بغلوں سے ناگوار بُو اٹھتی ہے۔ اگر پسینا نہ آئے تو ہم اس بُو سے بچ سکتے ہیں۔ جاپانی کمپنی Thanko نے یہ ننھا سا پنکھا اسی مقصد کے لیے بنایا ہے۔ آستین میں لگائے جانے کے بعد پنکھا بغل کی طرف ٹھنڈی ٹھار ہوا پھینکنا شروع کردیتا ہے، نتیجتاً پسینا سُوکھ جاتا ہے اور انسان زیادہ دیر تک پسینے کی بُو سے بچا رہ سکتا ہے!
ننھے پنکھے کو پلاسٹک کی کیسنگ میں بند کیا گیا ہے۔ بجلی سے چلنے والی ڈیوائس میں تین بیٹریاں( سیل) ڈالی جاتی ہیں۔ ایک بار بیٹیریاں ڈالنے کے بعد پنکھا پانچ سے نو گھنٹے تک ہوا دے سکتا ہے۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ پنکھے کو کتنی رفتار سے چلائیں گے۔ پنکھے کی رفتار میں کمی بیشی کے لیے ڈیوائس میں تین آپشن دیے گئے ہیں۔
آپ چاہیں تو ڈیوائس کو بیٹریوں کے بجائے اپنے پرسنل کمپیوٹر سے بھی چلا سکتے ہیں۔ بس اس کے لیے آپ کو علیٰحدہ سے ایک بیٹری پیک اور مائیکرو یوایس بی کیبل خریدنی ہوگی۔ Thanko کے مطابق پنکھے پر مشتمل ڈیوائس کا وزن محض تیس گرام ہے۔ اس لیے آستین پر لگائے جانے کے بعد کسی طرح کا دباؤ یا وزن محسوس نہیں ہوتا۔ آستین کے علاوہ اسے شرٹ میں سینے پر بھی لگایا جاسکتا ہے۔ اس طرح یہ سینے، پیٹ اور گردن کو ہوا پہنچاتا ہے۔ کمپنی نے اس انوکھی ڈیوائس کی قیمت چوبیس امریکی ڈالر رکھی ہے۔ ہاں۔۔۔۔ایک بات اور۔۔۔۔۔وہ یہ کہ اس انوکھی ڈیوائس سے فائدہ اٹھانے کے لیے آپ کوبغیر بازو والی شرٹ پہننی ہوگی!

اسٹرابری کینسرسمیت دیگرامراض کے خلاف مؤثرہے، تحقیق

اسٹرابری میں وٹامن سی کی بھرپور مقدار موجود ہوتی ہے اور اینٹی آکسیڈنٹس اجزا کینسر سے بچاتے ہیں۔ ماہرین، فوٹو؛ فائل
لندن: بچوں اوربڑوں میں یکساں مقبول اسٹرابری کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ اس کا باقاعدہ استعمال نہ صرف کینسرکوروکتا ہے بلکہ عمر کے ساتھ ساتھ لاحق نابینا پن کو بھی روکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اسٹرابری میں نارنجییوں کے برابر وٹامن سی پایا جاتا ہے۔ اس میں موجود فائٹونیوٹریئنٹس صحت پر بہت مفید اثرات مرتب کرتے ہیں۔  اس بنیاد پر اسٹرابری کو دل کا محافظ، جلن سے بچانے والا پھل اور سب سے بڑھ کر کینسر کو روکنے والی جادوئی نعمت قرار دیا جاسکتا ہے۔
کینسر سے بچاؤ:
اسٹرابری میں کینسر روکنے والے اینٹی آکسیڈنٹس، اینتھوسائننس اور ایلیجک ایسڈ کی بھرپور مقدارموجود ہوتی ہے۔ اینتھوسیانن اسٹرابری کو سرخ رنگ دیتے ہیں لیکن وہ خون میں فری ریڈیکلز بننے کے عمل کو روکتے ہیں جو خلیات کو سرطان زدہ کرتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ اسٹرابری کا استعمال پھیپھڑوں، معدے کی نالی، چھاتی اور زبان کے کینسر کی رسولی روکتے ہیں جب کہ اسٹرابری جگر کے کینسر کو بڑھنے سے روکتی ہے۔

بڑھاپا اور بصارت میں کمی:
اسٹرابری میں وٹامن سی کی بھرپور مقدار ہوتی ہے جو آگے چل کر بصارت میں کمی کو روکتے ہیں۔ آرکائیوز آف اوپتھیلمولوجی میں شائع تحقیق کے مطابق ہفتے میں اسٹرابری کی مناسب مقدار کھانے سے عمر سے وابستہ اندھے پن کا خطرہ 36 فیصد تک کم کیا جاسکتا ہے۔
اسٹرابری کے دیگر فواد میں یہ بڑھاپے میں دماغی کارکردگی اور یادداشت کو برقرار رکھتی ہے۔ اگر حاملہ خواتین دن میں صرف 8 اسٹرابری کھائیں تو نہ صرف ان میں فولیٹ کی 20 فیصد ضروریات پوری ہوجاتی ہے بلکہ ان کی اولاد پر بھی اس کے مفید اثرات پڑتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسٹرابری نظامِ ہاضمہ کے لیے انتہائی مفید اور جلن و سوزش کو ختم کرنے کے حیرت انگیز خواص رکھتی ہیں۔

یہ 25 سالہ نوجوان انٹرنیٹ پر مسلسل یہ ایک آسان ترین کام کرکے سال کے 5 کروڑ روپے کماتا ہے، ایسا کیا کام کرتا ہے؟ جان کر آپ کیلئے یقین کرنا مشکل ہوجائے گا

لندن (نیوز ڈیسک)آج کل ہر کوئی سوشل میڈیا استعمال کر رہا ہے، اگرچہ اکثر لوگ اسے وقت گزاری اور تفریح کا بہانہ سمجھتے ہیں، مگر کچھ ایسے خاص لوگ بھی ہیں جو سوشل میڈیا کا دانشمندانہ استعمال کرتے ہوئے گھر بیٹھے کروڑوں روپے کمارہے ہیں۔ پچیس سالہ نوجوان کرس سانچز بھی ایک ایسی ہی مثال ہیں جو ویب سائٹ ٹویٹر پر @uberfacts اکاﺅنٹ چلاتے ہیں، جس کے ذریعے وہ بس دلچسپ معلومات اور اعدادوشمار شیئر کرتے ہیں اور سالانہ 5لاکھ ڈالر (تقریباً 5کروڑ پاکستانی روپے) کما لیتے ہیں۔ 
ویب سائٹ MSNکی رپورٹ کے مطابق سانچز نے اپنی پہلی ٹویٹ 2009ءمیں کی اور گزشتہ 7سال کے دوران ان کے ٹویٹر، فیس بک اور انسٹاگرام فالوورز کی تعداد بڑھتے بڑھتے ایک کروڑ 80 لاکھ تک جاپہنچی ہے۔ سانچز نے حال ہی میں CNBC سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پبلشرزکے ساتھ کام کرتے ہیں جو ان کے ٹویٹر اور فیس بک پیج پر دی گئی معلومات سے اپنی ویب سائٹوں پر مواد شائع کرتے ہیں اور اس مواد کی وجہ سے ان کی ویب سائٹوں پر آنے والے انٹرنیٹ صارفین کی تعداد کے لحاظ سے انہیں ادائیگی کی جاتی ہے ۔ 
وہ اپنے ٹویٹر اکاﺅنٹ کے ذریعے بعض اوقات نئی مصنوعات اور فلموں کے لئے براہ راست تشہیر بھی کرتے ہیں لیکن ان کی زیادہ تر آمدنی کا انحصار ان کے اکاﺅنٹ کی وجہ سے تھرڈ پارٹی ویب سائٹوں پر جانے والے انٹرنیٹ صارفین ہیں۔ سانچز کا ٹویٹر اکاﺅنٹ اس وقت اس مقبول سوشل میڈیا ویب سائٹ کے 150 مقبول ترین اکاﺅنٹس میں سے ایک ہے۔ 
سانچز کا کہنا ہے کہ انہیں پہلے یہ پتہ نہیں تھا کہ وہ ٹویٹر سے رقم بھی کماسکتے ہیں۔ مگر جب ان کا اکاﺅنٹ بہت مقبول ہونا شروع ہوا تو ”چاچا“ نامی کمپنی نے ان سے رابطہ کیا اور انہیں سکھایا کہ وہ اپنے فالوورز کی بڑی تعداد کو پیسے میں کیسے بدل سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹویٹر کے ساتھ انسٹاگرام اور سنیپ چیٹ بھی ان کی آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ ہیں


ملالہ نہیں ڈاکٹر عافیہ ہیرو ہے


سحری کے بعد دیکھا کہ ایک ٹی وی چینل سے ملالہ یوسفزئی کی سالگرہ کی خبر نشر کی جارہی تھی۔جس میں بتایا جارہا تھا کہ ملالہ آج سولہ سال کی ہوگئی ہیں۔ دوسرا چینل تبدیل کیا تو وہ بھی یہ نیوز نشر کررہاتھا حتٰی کہ تمام چینل کی زینت یہی خبر بنی ہوئی تھی اور ساتھ ساتھ بتایا جارہا تھا کہ وہ اقوام متحدہ کے اجلاس سے خطاب کریں گی۔ میں خود بھی یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں اور دوستوں کے ان سوالات سے پریشان بھی ہوں جو مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ملالہ کو خود ساختہ ڈرامے کے آغاز سے لیکر اب تک الیکٹرانک میڈیا نے اتنا ہیرو کیوں بنایا ؟
اگر وہ تعلیم کی اتنی خیر خواہ تھی تو پھر پاکستان چھوڑ کربرطانیہ کیوں گئی جبکہ ملک کے خیر خواہ تو ملک کے لیے جان دے سکتے ہیں مگر ملک سے بھاگ نہیں سکتے ؟ کیا پاکستان میں تعلیم نہیں ہے؟ پاکستان میں ہر روز کہیں نہ کہیں دھماکے، ٹارگٹ کلنگ اور دیگر حادثات میں بہت سے والدین کے لخت جگر حصول تعلیم کےلیے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں مگر ان کو میڈیا کیوں نہیں ہیرو بناکر پیش کرتا ؟کیا بھٹو، ضیاء اور بے نظیر سے زیادہ ملالہ کو خطرہ ہے؟ کیا یہ لوگ ملک چھوڑ کر چلے گئے؟
بدقسمتی یہ ہے کہ جو اس ملک کی اصل ہیرو ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے میڈیا گھبراتا ہے۔ صرف پرنٹ میڈیا ہے جو کالمسٹ کے کالم کو اپنے اخبارات میں جگہ دے کر اس کی رہائی کے لیے آواز بلند کرتا ہے ۔ اور اس ہیرو سے پاکستان کا بچہ بچہ واقف ہے اگر انجان ہے تو ہمارے حکمران اور الیکٹرانک میڈیا والے، پرنٹ اور سوشل میڈیا مسلسل ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی آواز اٹھا رہا ہے۔ شروع شروع میں توچند سماجی و سیاسی تنظیموں اور بہت سی این جی اوز نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے صدا بلند کی مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان کی صدا ایسے بیٹھتی گئی جیسے دھول بیٹھ جاتی ہے۔ اسی طرح یہ کوششیں بھی بیٹھ گئیں۔آج اگر کسی نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں تو ان میں ڈاکٹر فوزیہ صدیقی (ڈاکٹر عافیہ کی بہن ) مجتبیٰ رفیق (چئیر مین وائس آف یوتھ)اسلم خٹک (جنرل سیکرٹری پی ایم ایل ا ین ڈسٹرکٹ سینٹرل کراچی)اور بہت سے کالمسٹ بھی شامل ہیں۔
ہر محب وطن پاکستانی کی طرح میں یہاں یہ واضح کردوں کہ ملک میں دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ کرنے والے لوگوں کی میں پرزور مذمت کرتا ہوں اور ایسی حرکت کرنے والوں پر لعنت بھیجتا ہوں جو ناحق لوگوں کا قتل عام کررہےہیں۔مگران لوگوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جو اسلام کی سر بلندی کے لئے دن رات کام کر رہے ہیں۔ ملالہ اورڈاکٹرعافیہ دونوں پاکستان کی بیٹی ہیں۔دونوں کا مشن بھی ایک ہے۔ ملالہ تعلیم کے حصول کی اگر بات کررہی تھی اس گناہ پر اگر کسی نے اْس پر گولی چلائی تو وہ نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ وہ سزا کا مستحق بھی ہے۔ مگر جب ہم کہتے ہیں کہ ملالہ نے پا کستان کا سر فخر سے بلند کردیا ہے تو ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ درحقیقت ڈاکٹر عافیہ عالم اسلام اور پاکستان کے سرکا تاج ہے۔
کیونکہ ڈاکٹر عافیہ نے اپنا آئیڈیل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مانا ہوا ہے جبکہ ملالہ کا آئیڈیل لاکھوں مسلمانوں کا قاتل اوبامہ ہے جو مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ ڈاکٹر عافیہ ایک مظلوم اعلٰی تعلیم یافتہ اورمسلمانوں کی ہیروہے جبکہ ملالہ غیرمسلم اور میڈیا کی ہیرو ہے۔ڈاکٹرعافیہ صدیقی نے 86سال کی سزاغیرمنصفانہ،اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کے ہاتھوں پائی۔ملالہ نے جہاد کی مخالفت کے نام پردنیامیں نام پایاجبکہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی مسلمان سائنٹسٹ ہونے پردہشتگرد کہلائی۔ملالہ نے مسلمان ہونے کے باوجود حجاب اور داڑھی کی مخالفت کی،ملالہ کوتو برقعہ دیکھ کر پتھر کا زمانہ یاد آتا ہے اوراسی اسلام دشمن نظریات کی بنا پر وہ امن کی فاختہ کہلائی۔
اس وقت دونوں امریکا میں موجود ہیں۔ ایک امریکیوں کی قید میں اور دوسری اقوام متحدہ کے فورم پر۔مغربی دنیا ملالہ کوایک مشن کے طورپر استعمال کررہی ہے کیونکہ وہ اسلامی شعائر کی مخالف ہے۔اگر ملالہ یہویوں اور نصرانیوں کی منظور نظر ہوکر بھی پاکستان کی بیٹی ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔مگرڈاکٹر عافیہ صدیقی اسلام کامکمل نمونہ ہوکر پاکستان کی بیٹی کیوں نہیں ہے؟پاکستان کے غیرت مندمسلمان خود فیصلہ کریں کہ پاکستان کی حقیقی اور عظیم بیٹی کون ڈاکٹر عافیہ یا ملالہ یوسف زئی؟حکومت وقت کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو کب امریکیوں کی چنگل سے آزاد کراتی ہے؟
ملالہ اگر تعلیم اور عورتوں کے حقوق کی اتنی خیر خواہ ہوتی تو آج جب اس پوری دنیا کےسامنے بولنے کا موقع ملا تو وہ اس فورم پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لیے آواز بلند کرتی اور دو ٹوک الفاظ میں کہتی کہ ’’میری بہن ڈاکٹر عافیہ جو اس وقت امریکا کی قید میں ہے اس کو فوراً رہا کیاجائے۔ اس کو کیوں ناحق سزادی جارہی ہے ‘‘ مگر افسوس اس کا مشن یہ نہیں ہے اس کا مشن تو کچھ اور ہے۔ کل کے ایک اخبار میں خبر دیکھی جس میں طالبان نےملالہ کو دعوت دی ہے کہ وہ پاکستان آکر اپنی تعلیم مکمل حاصل کرے،کیا ملالہ اس دعوت کے لیے تیار ہوگی ؟ ناممکن۔
اس کالم کے ذریعے اپنی اور تمام پاکستانیوں کی آواز میاں نواز شریف تک پہنچاتے ہوئے ان کوا یک بار پھر یاد کراتا چلوں کہ آپ نے وعدہ کیا تھا کہ اگر انہیں اقتدار ملا تو وہ عافیہ کو ضرور رہا کرائیں گے۔ میاں صاحب اس معاملے میں بھی ایٹمی دھماکوں کی طرح بولڈ فیصلہ لیں۔کمیٹیاں بنانے سے کیا فائدہ۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ ’’کمیٹی بناؤ اور مٹی پاؤ‘‘جس طرح آپ نےایٹمی دھماکے کرکے پاکستانی عوام کو خوش کیا اسی طرح اب فی الفور فیصلہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ایسے پاکستان لاؤ جیسے ریمنڈڈیوس کو سابقہ حکومت نے پاکستان سے بھیجاتھا تاکہ پاکستانیوں کا ریمنڈڈیوس والا غم غلط ہو ۔
الیکٹرک میڈیا نے جتنا ملالہ یوسفزئی کو ہیرو بنا کرپیش کیا ہے اس سے زیادہ ہیرو تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی مہم چلانے والا مجتبیٰ رفیق جس نے (ایٹمی دھماکے کے دن کا نام یوم تکبیر تجویزکیاتھا)ہے کیونکہ ملالہ تو اس حادثے کے بعد پاکستان چھوڑ کربرطانیہ شفٹ ہوگئی مگر یہ مجتبٰی رفیق وہ شخص ہے جو انگلینڈمیں اپناسب کچھ چھوڑ کر پاکستان شفٹ ہواتاکہ اپنے ملک کی خدمت کرسکے۔مجبتٰی رفیق اس وقت غربت وافلاس کے دن گزاررہا ہے اور ملالہ ڈالروں میں کھیل رہی ہے۔ ہیرووہ ہوتے ہیں جو ملک کے لیے کچھ کریں وہ نہیں جواپنی جان کے ڈر سے ملک سے ہی فرار ہوجائیں۔ عزت و ذلت اور زندگی و موت تو اللہ کے اختیار میں ہے جب موت آنی ہے تو اس کو کوئی نہیں ٹال سکتا ۔
میاں صاحب ان باتوں کو آپ سے زیادہ بہتر کون جانتا اور سمجھتا ہے ۔بس ایک فیصلہ لینے کی دیر ہے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اپنی مریم نواز جیسی بیٹی کو باعزت پاکستان لا کرامر ہوتے ہیں یا پھر سابق حکومت کی طرح عوامی بددعائیں اپنا مقدر ٹھہراتے ہیں

بھارت سوگ میں ڈوب گیا۔۔۔خوفناک حملے میں متعدد فوجی ہلاک

پیرا ملٹری کمانڈرز کے قافلے پر دستی بم حملہ ، 10 اہلکار ہلاک ۔ خبر ایجنسی



نئی دہلی (ڈیلی میل اُردو تازہ ترین اخبار۔19جولائی 2016ء): نئی دہلی میں پیرا ملٹری کمانڈرز کے قافلے پر دستی بم حملہ کیا۔ خبر ایجنسی کے مطابق بہار ڈسٹرکٹ میں باغیوں نے پیرا ملٹری کمانڈرز کے قافلے پر دستی بم حملہ کیا۔ جس کے نتیجے میں دس اہلکار ہلاک جبکہ 5 زخمی بھی ہوئے
بھارتی میڈیا کے مطابق باغیوں اور کمانڈرز کے تصادم میں 3 باغیوں کو بھی فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا۔ اعلیٰ افسر نے بتایا کہ 8 اہلکار موقع ہی پر دم تور گئے جبکہ مزید دو کو اسپتال منتقل کیا جا رہا تھا کہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ بھی راستے ہی میں دم توڑ گئے۔ ان جوانوں کا تعلق 205 ویں کوبرا سے تھا جنہیں نیکسل آپریشن کے لیے ریاست میں تعینات کیا گیا تھا۔

دنیا کے 10 ممالک کے امیر ترین لوگ


عالمگیریت کے اس دور میں دنیا بھر میں امیر ترین افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سب سے زیادہ امیر 50 افراد میں سے زیادہ تر امریکی ہیں لیکن اب اسپین، میکسیکو اور فرانس جیسے ممالک بھی آگے آ رہے ہیں۔
معروف جریدے فورس کی فہرست میں موجود کئی ارب پتی ایسے جو اپنے بل بوتے پر محنت اور قسمت سے اس مقام تک آئے ہیں جبکہ ایسے افراد بھی ہیں جنہیں یہ دولت ورثے میں ملی ہے لیکن اپنے کاروباری فہم و فراست سے انہوں نے اس دولت میں مزید اضافہ کیا ہے۔
آئیے آپ کو دنیا کے 10 اہم ممالک کے امیر ترین افراد سے ملاتے ہیں

مائیکل سن گیس کمپنی نوواٹیک کے سی ای او اور چیئرمین ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کا آغاز ایک تعمیراتی کمپنی میں فورمین کی حیثیت سے کیا اور محنت کرکے روس کے امیر ترین شخص کے مقام تک پہنچے ہیں۔

برطانیہ – ہندوجا خاندان، 14.5 ارب ڈالرز

ہندوجا گروپ کے پس پردہ خاندان، یہ مختلف کمپنیوں کا ایک عالمی مجموعہ ہے، جس کے صدر دفاتر لندن میں ہیں اور ان کا مالک خاندان برطانیہ کے امیر ترین شہری ہے۔ ادارے کی سالانہ آمدنی 20 ارب ڈالرز سے زیادہ ہے