ڈاکٹر عافیہ صدیقی کون ہیں؟
ڈاکٹر عافیہ صدیقی۔2 مارچ، 1972 کو کراچی، پاکستان، میں پیدا ہوئیں، عافیہ جو کہ محمد صدیقی، جوکہ انگلینڈ سے تربیت یافتہ ڈاکٹر، اور اسمیت سے تربیت یافتہ ڈاکٹر کے تین بچوں میں سے ایک تھی. وہ 1990 میں ایک طالب علم ویزا پر ہیوسٹن میں منتقل ہوئیں. وہ تین سمسٹرزہیوسٹن یونیورسٹی سے کرنے کے بعد اسکالر شپ (وظیفہ) پر میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی منتقل ہوگئیں.
اس کی تعلیمی کامیابیوں کی تفصیل میں جانے کے بغیر میں تصویر کے تاریک پہلو کو حل کرنا چاہتا ہوں. عافیہ کی والدہ کے مطابق، عافیہ صدیقی نے گلشن اقبال میں میٹرو کیب میں ان کا گھر 28 مارچ، 2003 کو چھوڑ دیا اورراولپنڈی کی پرواز پکڑنے کے لئےنکلیں، لیکن ہوائی اڈے پر نہیں پہنچی تھیں. جب یہ خاندان کے پندرہ سے بیس افراد کیساتھ گھر سے باہر آئیں،تو اگلے سڑک پر تین سے چار گاڑیوں میں کچھ لوگ ان کا انتظار کر رہے تھے اور اس کے بعد انہوں نے ان کواغوا کرلیا. عافیہ کو ایک گاڑی میں دوسری گاڑی میں بچوں کو رکھا گیا ہے.
پاکستانی مقامی اخبارات کے مطابق ایک عورت کو دہشت گردی کے الزام میں تحویل میں لے لیا گیا تھا یہ بیان پاکستان کی وزارت داخلہ کے ترجمان کی طرف سے آیا ہے. میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ عافیہ صدیقی کو گرفتارکیا گیا تھا ۔کہ کراچی میں ایک انٹیلی جنس ایجنسی کی جانب سے ایک خاتون کو اٹھایا گیااور پوچھ گچھ کے لئے ایک نامعلوم جگہ پر منتقل کر دیا گیا ‘. ایک سال بعد، ایک پاکستانی حکومت کے ترجمان جنہوں نے کہا ہے کہ 2003 میں عافیہ کو امریکی حکام کے حوالے کر دیا
کسی انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں نے امریکہ کی عافیہ صدیقی کی غیر قانونی منتقلی کےپر سوال اٹھانے کی ہمت نہ کی۔
عافیہ پر ہیرے کی غیر قانونی منتقلی اور القائدہ کی مالی معاونت کا الزام لگایا گیا۔وال سٹریٹ جریدے نہ واضح کیا کہ 2001 میں ہیرے کی لائیبریا میں غیر قانونی تجارت کے حوالے سے(ڈوگلاس فرح جو کہ قومی معلوماتی حمکت عملی مرکز کی طالبہ تھیں نے اپنی کتاب(پتھر سے خون)۔۔۔میں واضح کیا۔۔۔کہ دہشت گردوں کی خفیہ مالی معاون۔۔عافیہ صدیقی۔۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے میں الزامات میڈیا کی طرف سے غلط بتائے گئے۔اور گھر والوں کی معلومات کے مطابق وہ وہ کسی غیر قانونی تجارت میں ملوث نہ تھی اور نہ ہی کسی القائدہ کی مالی معاونت میں شامل تھی اور نہ ہی کسی خون میں ملوث ۔۔۔. 2001 ء میں وہ افریقہ میں موسم گرما میں کیا کر رہا تھی کسی یہ جاننے کی کوشش نہ کی بلکہ میڈیا کی جانب سے الزامات کی بارش کردی گئی۔۔کسی نے حقیقت نہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ کیا کررہی ہے۔۔۔درحقیقت وہ مقامی مسجد سے قرآن لے کرجیلوں میں قید قیدیوں کو تقسیم کررہی تھیں۔۔ان کے ساتھ ہوٹل میں مقیم ۔۔ایلینی وٹفیلیڈ شارپ جو کہ رکسبری میں بییک مینر ہوٹل میں 20 نمبر فلور پر مقیم تھیں۔اورانہوں نے بتایا ٓ کہ وہ کھیلوں کے کھلاڑیوں کی میزبان تھیں اور اس کیساتھ اس کی بہن فوزیہ کےبچے کی دیکھ بھال کرتی تھیں کیونکہ فوزیہ برگھم اور خواتین کے ہسپتال سے تعلیم وتجربہ یعنی فیلوشپ حاصل کررہی تھیں عصبی سائنس میں،،،جس سے واضح ہوتا ہے کہ ایک شخص ایک ہی وقت میں دو مقامات پر کیسے ہوسکتا ہے۔۔.
ایف بی آئی کا بیان ہے کہ انہیں جیوراساینک یعنی بائیوکیمیکل ہتھیاربنانے میں اور کیمیائی جنگ کے ہتھیار کے الزام میں ملوث کیا گیا تھا جبکہ عافیہ کے وکیل کے مطابق”وہ دماغ کے خلیات پر جانچ کررہی تھیں کہ وہ کس طرح گیسوں پر رد عمل کا اظہار کرتے ہیں ۔جبکہ القائدہ کی بدلتی ہوئی حکمت عملی سے خوفزدہ ہوکر ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ پی ایچ ڈی اور ایم آئی ٹی کی تعلیم کی آڑ میں بائیوکیمیائی وائرس تیار کررہیں ہیں. ”
ان کے وکیل کے مطابق عافیہ کا کام کے ایک عام پریکسٹس کرنے والی طالبہ کی بنیاد پر کیا گیا تھا: کہ جس طرح سے لوگ جانچ اور مشابہت کیلئے سیکھتے ہیں. اس کا مطالعہ کرنے کے لئے، انہوں ایک کمپیوٹر پروگرام وضع کیا اور بالغ رضاکاروں، جو اس کے دفتر میں آتے تھے اور مختلف اشیاء کی شبیہ سکرین بر جانچ کی غرض سے دیکھتے تھے۔
برانڈیس کے نیورو سائنس عصبی سائنس کے پروفیسر پال ڈی زیوکا بیان ہے کہ عافیہ صدیقی میں کوئی ایسی چیز میں نے نہیں دیکھی جو اس پر الزام لگایا گیا ہے ،بغیر کسی ثبوت کے اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا۔اور وہ ایک ماہر کمپیوٹر سائنس تھیں اور ایک نہائت قابل خاتون تھیں۔صرف اس کے خلاف یہ ثبوت ہے کہ وہ ایک جذبہ رکھنے والی مسلمان تھی۔۔میں حیران ہوں اس بات پر صرف کہ وہ ایک مسلمان ہے اسے مورد الزام ٹھہرایا گیا ۔انہوں یہ بھی بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ ایک راسخ عقیدہ خاتون تھیں اور کوئی بھی نظریہ یا مفروضہ سے پہلے وہ ایمان کا ذکر کرتی کہ اگر اللہ چاہے تو ایسا ہوگا۔۔یعنی سب اللہ کی مرضی پر ہے۔۔
اصلی۔۔حقیقی عافیہ
طلال عید، نیو انگلینڈ کے کوئنسی میں اسلامی سینٹر کے امام ہیں ۔ان کا بیان ہے کہ جو خیراتی کام اس نے کیا وہ اس کے ذریعے صدیقی کو جانتا تھا. انہوں نے بوسنیائی یتیموں کے لئے امداد اور رقم اکٹھی کی۔حالانکہ ہم مرد حیران تھے کہ وہ کس قدر فکر مند اور سرگرم تھیں اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کیلئے۔یہ دیکھ کر ہمیں بہت اچھا لگا۔
ارد گرد مسلم کمیونٹی کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں ۔یہ کے ایک طالب علم تھی یہاں وہ بہت فکر مند تھیں کہ مسلمان اپنی کمیونٹی کی ضروریات پر دھیان نہیں کر رہے “،” انہوں نے کہا کہ ہمیں زیادہ اپنے لوگوں کی مدد کرنے کی ضرورت ہے۔
رکسبری میں مڈل ایسڑن کیفے کے ساتھ اگلی جانب ایک اینٹوں سے بنی مسجد کی عمارت ہے جہاں اللہ کی عبادت کی جاتی ہے۔اور عبداللہ فاروق اس مسجد کے امام ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ میں جانتا ہوں عافیہ یہاں امریکہ میں رہتی تھیں ۔ وہ اور اس کا ادارہ یہاں امریکی لوگوں کو اسلام کی دعوت اور معلومات فراہم کرتی تھا۔وہ قیدیوں کو قرآن فراہم کرتی تھیں اور دوسری کتابیں اسی طرح سکولوں کے بچوں کو بھی اس طرح کتب فراہم کرتی تھیں۔
ان کی کتب کے بکس مسجد میں آتے اور وہ چھوٹی خاتون ہونے کے باوجود کسی سے مدد طلب نہ کرتی اور اپنا سامان بکس اور کتابیں خود اٹھا کرسیڑھیوں سے لیجاتی تھیں۔حالانکہ وہ ایم آئی ٹی کی طالبہ تھیں لیکن پھر بھی انہوں نے مسلم طلباء کی ایک تنظیم کو بھی جوائن کررکھا تھا۔
انہوں نے تین راہنمائی کی کتابیں لکھیں جس میں راہنمائی تھی کہ کس طرح دوسروں کو مخاطب کیا جائے اور اسلام کی دعوت دی جائے ۔وہ سکولوں میں بھی دعوت دیتی کہ اسلام قبول کیا جائے۔
تو یہ ہیں وہ ثبوت کو ایف بی آئی کو مطلوب تھے؟۔۔۔اس کو اسلام کیلئے کی جانی والی کوششوں کی وجہ سے سزا دی گئی اور اسے ٹیکسان جیل میں بند کردیا گیا۔عدالت میں بھی ڈارامائی کاروائی کی گئی،نہ کوئی ثبوت نہ کوئی اسلحہ نہ کسی کو گولی ماری گئی نہ کسی کے انگلیوں کے نشان ہی تھے اور دوسرے حقائق اور ثبوت امریکی فوج نے مٹا دیے جب وہ قانونی کاروائی میں ناکام رہی۔اور 86 سال کی سزا سنائی گئی اور اس سے برے طریقہ سے پوچھ گچھ کی گئی۔۔میں حیران ہوں کے پچاس سے زائد اسلامی ممالک ہیں اور ایک عافیہ ہے۔۔مسلمانوں کے پاس بہت سے قدرتی وسائل ہیں اور پاکستان کے پاس ایٹمی صلاحیت اور باصلاحیت افواج۔۔لیکن بے سود
عافیہ کی گرفتاری تمام مسلم ممالک کے چہرے پر تماچا ہے.وہ دن دور نہیں جب قیامت کے دن پوچھ گچھ ہوگی ہم سے ہماری بہن کے بارے میں اور اس دن ہماری آنکھیں شرم سے نیچے جھکی ہوں گی۔