The Daily Mail Urdu

Monday, July 18, 2016

ﺍﯾﮏ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﻓﺮﻭﺵ ﻧﮯ ﺍﺩﯾﺒﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﻋﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﮐﺴﯽ ﻣﺤﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﮐﺎﻥ ﮐﮭﻮﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﺭﮈ ﻟﮕﺎ ﺩﯾﺎ

ﺍﯾﮏ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﻓﺮﻭﺵ ﻧﮯ ﺍﺩﯾﺒﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﻋﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﮐﺴﯽ ﻣﺤﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﮐﺎﻥ ﮐﮭﻮﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﺭﮈ ﻟﮕﺎ ﺩﯾﺎ..
" ﯾﮩﺎﮞ ﺗﺎﺯﮦ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﺩﺳﺘﯿﺎﺏ ﮨﮯ"
ﺍﯾﮏ ﺍﺩﯾﺐ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﺎ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﮔﺬﺭ ﮨﻮﺍ .. ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﻮﺭﮈ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﻓﺮﻭﺵ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ .. " ﻣﯿﺎﮞ ! ﺍﺗﻨﺎ ﻟﻤﺒﺎ ﺟﻤﻠﮧ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﺿﺮﺭﻭﺕ ﺗﮭﯽ .. ﺍﺗﻨﺎ ﮨﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ " ﺗﺎﺯﮦ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﺩﺳﺘﯿﺎﺏ ﮨﮯ "ﻣﭽﮭﻠﯽ ﻭﺍﻟﮯ ﻧﮯ ﻟﻔﻆ " ﯾﮩﺎﮞ " ﻣﭩﺎ ﺩﯾﺎ ..
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﺻﺎﺣﺐ ﺍٓﺋﮯ .. ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﻮﺭﮈ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ .. " ﺑﮭﺌﯽ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ " ﺗﺎﺯﮦ " ﻟﮑﮭﻨﮯﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﺣﺎﺟﺖ ﮨﮯ .. ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﺗﻮ ﺗﺎﺯﮦ ﮨﯽ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ".. ﻣﭽﮭﻠﯽ ﻓﺮﻭﺵ ﻧﮯ ﻟﻔﻆ " ﺗﺎﺯﮦ " ﻣﺤﻮ ﮐﺮﺩﯾﺎ ..
ﺍﺏ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﮐﭽﮫ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﻧﻈﺮ ﺍٓ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ .. "ﻣﭽﮭﻠﯽ ﺩﺳﺘﯿﺎﺏ ﮨﮯ"
"ﭘﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﺻﺎﺣﺐ ﺍٓﺋﮯ .. ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻋﯿﻨﮏ ﺳﯿﺪﮬﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯﺑﻮﺭﮈ ﮐﻮ ﭘﮍﮬﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﺒﺼﺮﮦ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ .. " ﻣﭽﮭﻠﯽ ﺩﺳﺘﯿﺎﺏ ﮨﮯ " ﻟﮑﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﺣﺎﺟﺖ ﭘﯿﺶ ﺍٓﮔﺌﯽ ﺑﮭﺎﺋﯽ ؟.. ﻣﭽﮭﻠﯽ ﺗﻮ ﺩﺳﺘﯿﺎﺏ ﮨﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﺒﮭﯽ ﺗﻮ ﺑﮑﺘﯽ ﮨﮯ .. ﺑﺲ ﺍﺗﻨﺎ ﮨﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﺗﮭﺎ .. " ﻣﭽﮭﻠﯽ .."
ﻟﮩٰﺬﺍ ﺍﺏ ﺑﻮﺭﮈ ﮐﭽﮫ ﯾﻮﮞ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ.. "ﻣﭽﮭﻠﯽ "
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﮮ ﺍﺩﯾﺐ , ﺑﮭﺎﺭﯼ ﻣﯿﻨﮉﯾﭧ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍٓﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺗﺒﺼﺮﮦ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ .. " ﺑﮭﺌﯽ ﯾﮧ ﺑﻮﺭﮈ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺗﮑﻠﻒ ﮨﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﯿﺎ .. ﻣﭽﮭﻠﯽ ﺗﻮ ﭼﯿﺰ ﮨﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﻮ ﺩﻭﺭ ﺳﮯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ "..ﻟﮩٰﺬﺍ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﻓﺮﻭﺵ ﻧﮯ ﻭﮦ ﺑﻮﺭﮈ ﮨﭩﺎ ﮐﺮ ﺳﺎﺋﯿﮉ ﭘﮧ ﺭﮐﮫ ﻟﯿﺎ ....
ﺍﺏ ﺫﺭﺍ ﮨﻨﺴﯽ ﺭﻭﮐﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍٓﮔﮯ ﭘﮍﮬﯿﮟ ..
ﮨﻢ ﻧﮯ ﺟﺐ ﯾﮧ ﻣﻠﮏ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻮﺭﮈ ﭘﺮ ﺑﮍﺍ ﺑﮍﺍ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ..
" ﻻ ﺍﻟٰﮧ ﺍﻻ ﺍﻟﻠﮧ ﻣﺤﻤﺪ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ "
ﭘﮭﺮ ﮐﭽﮫ ﻣﻔﮑﺮﯾﻦ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﮯ .. ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺭﺍﺋﮯ ﺩﯼ ﮐﮧ ﺍﺗﻨﺎ ﺗﮑﻠﻒﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﯽ ؟..
ﺟﺐ ﯾﮩﺎﮞ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ , ﺷﻠﻮﺍﺭ ﻗﻤﯿﺾ ﺍﻭﺭ ﭘﮕﮍﯼ ﭘﮩﻨﺘﮯ ﮨﯿﮟ , ﻟﻮﮒ ﻧﻤﺎﺯ ﺭﻭﺯﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﯿﺎ ﺣﺎﺟﺖ ﮨﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ ﭘﻨﮕﺎ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﯽ ..
ﻟﮩٰﺬﺍ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﻓﺮﻭﺷﻮﮞ ﻧﮯ ﻭﮦ ﮐﻠﻤﮧ ﮨﯽ ﻏﺎﺋﺐ ﮐﺮﮐﮯ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺍﺳﮯ ﮈﮬﻮﻧﮉ ﮈﮬﻮﻧﮉ ﮐﺮ ﺗﮭﮏ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ..
ﮐﮩﯿﮟ ﻧﻈﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺍٓ ﺭﮨﺎ ..
ﻧﮧ ﺍﻗﺘﺪﺍﺭ ﮐﮯ ﺍﯾﻮﺍﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ___
ﻧﮧ ﻣﻌﯿﺸﺖ ﮐﮯ ﺑﺎﺯﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ___
ﻧﮧ ﻋﻠﻤﯽ ﺩﺭﺳﮕﺎﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ___
ﻧﮧ ﮔﻠﯿﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ !
یہ سچ ہے کہ آج ﮨﻢ ﻣﻨﺰﻝ ﺳﮯ ﺑﮭﭩﮏ چکے ہیں لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم نے جس منزل کا تعین کیا تھا ہماری وہ منزل غلط تھی ۔۔ راستہ دشوار اور کٹھن ضرور ہے لیکن میرا ایمان ہے کہ ہم منزل پر پہنچیں گے ضرور.. اِن شٰاءاللہ

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کون ہے؟ اور کس جرم میں امریکہ میں قید ہیں

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کون ہیں؟
ڈاکٹر عافیہ صدیقی۔2 مارچ، 1972 کو کراچی، پاکستان، میں پیدا ہوئیں، عافیہ جو کہ محمد صدیقی، جوکہ انگلینڈ سے تربیت یافتہ ڈاکٹر، اور اسمیت سے تربیت یافتہ ڈاکٹر کے تین بچوں میں سے ایک تھی. وہ 1990 میں ایک طالب علم ویزا پر ہیوسٹن میں منتقل ہوئیں. وہ تین سمسٹرزہیوسٹن یونیورسٹی سے کرنے کے بعد اسکالر شپ (وظیفہ) پر میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی منتقل ہوگئیں.
اس کی تعلیمی کامیابیوں کی تفصیل میں جانے کے بغیر میں تصویر کے تاریک پہلو کو حل کرنا چاہتا ہوں. عافیہ کی والدہ کے مطابق، عافیہ صدیقی نے گلشن اقبال میں میٹرو کیب میں ان کا گھر 28 مارچ، 2003 کو چھوڑ دیا اورراولپنڈی کی پرواز پکڑنے کے لئےنکلیں، لیکن ہوائی اڈے پر نہیں پہنچی تھیں. جب یہ خاندان کے پندرہ سے بیس افراد کیساتھ گھر سے باہر آئیں،تو اگلے سڑک پر تین سے چار گاڑیوں میں کچھ لوگ ان کا انتظار کر رہے تھے اور اس کے بعد انہوں نے ان کواغوا کرلیا. عافیہ کو ایک گاڑی میں دوسری گاڑی میں بچوں کو رکھا گیا ہے.
پاکستانی مقامی اخبارات کے مطابق ایک عورت کو دہشت گردی کے الزام میں تحویل میں لے لیا گیا تھا یہ بیان پاکستان کی وزارت داخلہ کے ترجمان کی طرف سے آیا ہے. میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ عافیہ صدیقی کو گرفتارکیا گیا تھا ۔کہ کراچی میں ایک انٹیلی جنس ایجنسی کی جانب سے ایک خاتون کو اٹھایا گیااور پوچھ گچھ کے لئے ایک نامعلوم جگہ پر منتقل کر دیا گیا ‘. ایک سال بعد، ایک پاکستانی حکومت کے ترجمان جنہوں نے کہا ہے کہ 2003 میں عافیہ کو امریکی حکام کے حوالے کر دیا
کسی انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں نے امریکہ کی عافیہ صدیقی کی غیر قانونی منتقلی کےپر سوال اٹھانے کی ہمت نہ کی۔
عافیہ پر ہیرے کی غیر قانونی منتقلی اور القائدہ کی مالی معاونت کا الزام لگایا گیا۔وال سٹریٹ جریدے نہ واضح کیا کہ 2001 میں ہیرے کی لائیبریا میں غیر قانونی تجارت کے حوالے سے(ڈوگلاس فرح جو کہ قومی معلوماتی حمکت عملی مرکز کی طالبہ تھیں نے اپنی کتاب(پتھر سے خون)۔۔۔میں واضح کیا۔۔۔کہ دہشت گردوں کی خفیہ مالی معاون۔۔عافیہ صدیقی۔۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے میں الزامات میڈیا کی طرف سے غلط بتائے گئے۔اور گھر والوں کی معلومات کے مطابق وہ وہ کسی غیر قانونی تجارت میں ملوث نہ تھی اور نہ ہی کسی القائدہ کی مالی معاونت میں شامل تھی اور نہ ہی کسی خون میں ملوث ۔۔۔. 2001 ء میں وہ افریقہ میں موسم گرما میں کیا کر رہا تھی کسی یہ جاننے کی کوشش نہ کی بلکہ میڈیا کی جانب سے الزامات کی بارش کردی گئی۔۔کسی نے حقیقت نہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ کیا کررہی ہے۔۔۔درحقیقت وہ مقامی مسجد سے قرآن لے کرجیلوں میں قید قیدیوں کو تقسیم کررہی تھیں۔۔ان کے ساتھ ہوٹل میں مقیم ۔۔ایلینی وٹفیلیڈ شارپ جو کہ رکسبری میں بییک مینر ہوٹل میں 20 نمبر فلور پر مقیم تھیں۔اورانہوں نے بتایا ٓ کہ وہ کھیلوں کے کھلاڑیوں کی میزبان تھیں اور اس کیساتھ اس کی بہن فوزیہ کےبچے کی دیکھ بھال کرتی تھیں کیونکہ فوزیہ برگھم اور خواتین کے ہسپتال سے تعلیم وتجربہ یعنی فیلوشپ حاصل کررہی تھیں عصبی سائنس میں،،،جس سے واضح ہوتا ہے کہ ایک شخص ایک ہی وقت میں دو مقامات پر کیسے ہوسکتا ہے۔۔.
ایف بی آئی کا بیان ہے کہ انہیں جیوراساینک یعنی بائیوکیمیکل ہتھیاربنانے میں اور کیمیائی جنگ کے ہتھیار کے الزام میں ملوث کیا گیا تھا جبکہ عافیہ کے وکیل کے مطابق”وہ دماغ کے خلیات پر جانچ کررہی تھیں کہ وہ کس طرح گیسوں پر رد عمل کا اظہار کرتے ہیں ۔جبکہ القائدہ کی بدلتی ہوئی حکمت عملی سے خوفزدہ ہوکر ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ پی ایچ ڈی اور ایم آئی ٹی کی تعلیم کی آڑ میں بائیوکیمیائی وائرس تیار کررہیں ہیں. ”
ان کے وکیل کے مطابق عافیہ کا کام کے ایک عام پریکسٹس کرنے والی طالبہ کی بنیاد پر کیا گیا تھا: کہ جس طرح سے لوگ جانچ اور مشابہت کیلئے سیکھتے ہیں. اس کا مطالعہ کرنے کے لئے، انہوں ایک کمپیوٹر پروگرام وضع کیا اور بالغ رضاکاروں، جو اس کے دفتر میں آتے تھے اور مختلف اشیاء کی شبیہ سکرین بر جانچ کی غرض سے دیکھتے تھے۔
برانڈیس کے نیورو سائنس عصبی سائنس کے پروفیسر پال ڈی زیوکا بیان ہے کہ عافیہ صدیقی میں کوئی ایسی چیز میں نے نہیں دیکھی جو اس پر الزام لگایا گیا ہے ،بغیر کسی ثبوت کے اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا۔اور وہ ایک ماہر کمپیوٹر سائنس تھیں اور ایک نہائت قابل خاتون تھیں۔صرف اس کے خلاف یہ ثبوت ہے کہ وہ ایک جذبہ رکھنے والی مسلمان تھی۔۔میں حیران ہوں اس بات پر صرف کہ وہ ایک مسلمان ہے اسے مورد الزام ٹھہرایا گیا ۔انہوں یہ بھی بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ ایک راسخ عقیدہ خاتون تھیں اور کوئی بھی نظریہ یا مفروضہ سے پہلے وہ ایمان کا ذکر کرتی کہ اگر اللہ چاہے تو ایسا ہوگا۔۔یعنی سب اللہ کی مرضی پر ہے۔۔

اصلی۔۔حقیقی عافیہ
طلال عید، نیو انگلینڈ کے کوئنسی میں اسلامی سینٹر کے امام ہیں ۔ان کا بیان ہے کہ جو خیراتی کام اس نے کیا وہ اس کے ذریعے صدیقی کو جانتا تھا. انہوں نے بوسنیائی یتیموں کے لئے امداد اور رقم اکٹھی کی۔حالانکہ ہم مرد حیران تھے کہ وہ کس قدر فکر مند اور سرگرم تھیں اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کیلئے۔یہ دیکھ کر ہمیں بہت اچھا لگا۔
ارد گرد مسلم کمیونٹی کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں ۔یہ کے ایک طالب علم تھی یہاں وہ بہت فکر مند تھیں کہ مسلمان اپنی کمیونٹی کی ضروریات پر دھیان نہیں کر رہے “،” انہوں نے کہا کہ ہمیں زیادہ اپنے لوگوں کی مدد کرنے کی ضرورت ہے۔
رکسبری میں مڈل ایسڑن کیفے کے ساتھ اگلی جانب ایک اینٹوں سے بنی مسجد کی عمارت ہے جہاں اللہ کی عبادت کی جاتی ہے۔اور عبداللہ فاروق اس مسجد کے امام ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ میں جانتا ہوں عافیہ یہاں امریکہ میں رہتی تھیں ۔ وہ اور اس کا ادارہ یہاں امریکی لوگوں کو اسلام کی دعوت اور معلومات فراہم کرتی تھا۔وہ قیدیوں کو قرآن فراہم کرتی تھیں اور دوسری کتابیں اسی طرح سکولوں کے بچوں کو بھی اس طرح کتب فراہم کرتی تھیں۔
ان کی کتب کے بکس مسجد میں آتے اور وہ چھوٹی خاتون ہونے کے باوجود کسی سے مدد طلب نہ کرتی اور اپنا سامان بکس اور کتابیں خود اٹھا کرسیڑھیوں سے لیجاتی تھیں۔حالانکہ وہ ایم آئی ٹی کی طالبہ تھیں لیکن پھر بھی انہوں نے مسلم طلباء کی ایک تنظیم کو بھی جوائن کررکھا تھا۔
انہوں نے تین راہنمائی کی کتابیں لکھیں جس میں راہنمائی تھی کہ کس طرح دوسروں کو مخاطب کیا جائے اور اسلام کی دعوت دی جائے ۔وہ سکولوں میں بھی دعوت دیتی کہ اسلام قبول کیا جائے۔
تو یہ ہیں وہ ثبوت کو ایف بی آئی کو مطلوب تھے؟۔۔۔اس کو اسلام کیلئے کی جانی والی کوششوں کی وجہ سے سزا دی گئی اور اسے ٹیکسان جیل میں بند کردیا گیا۔عدالت میں بھی ڈارامائی کاروائی کی گئی،نہ کوئی ثبوت نہ کوئی اسلحہ نہ کسی کو گولی ماری گئی نہ کسی کے انگلیوں کے نشان ہی تھے اور دوسرے حقائق اور ثبوت امریکی فوج نے مٹا دیے جب وہ قانونی کاروائی میں ناکام رہی۔اور 86 سال کی سزا سنائی گئی اور اس سے برے طریقہ سے پوچھ گچھ کی گئی۔۔میں حیران ہوں کے پچاس سے زائد اسلامی ممالک ہیں اور ایک عافیہ ہے۔۔مسلمانوں کے پاس بہت سے قدرتی وسائل ہیں اور پاکستان کے پاس ایٹمی صلاحیت اور باصلاحیت افواج۔۔لیکن بے سود

عافیہ کی گرفتاری تمام مسلم ممالک کے چہرے پر تماچا ہے.وہ دن دور نہیں جب قیامت کے دن پوچھ گچھ ہوگی ہم سے ہماری بہن کے بارے میں اور اس دن ہماری آنکھیں شرم سے نیچے جھکی ہوں گی۔

کیا اولاد کی نافرمانی پر حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کی دلیل دینا صحیح ہے؟

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاو، درحقیقت اس میں ایک شبہ کے جواب کی طرف اشارہ فرمایا جو شبہ عام طور پر ہمارے دلوں میں پیدا ہوتا ہے، وہ شبہ یہ ہے کہ آج جب لوگوں سے یہ کہا جاتا ہے کہ اپنی اولاد کو بھی دین کی تعلیم دو، کچھ دین کی باتیں ان کو سکھاو، ان کو دین کی طرف لاو، گناہوں سے بچانے کی فکر کرو، تو اس کے جواب میں عام طور پر بکثرت لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اولاد کو دین کی طرف لانے کی بڑی کوشش کی، مگر کیا کریں کہ ماحول اور معاشرہ اتنا خراب ہے کہ بیوی بچوں کو بہت سمجھایا، مگر وہ مانتے نہیں ہیں اور زمانے کی خرابی سے متاثر ہو کر انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کرلیا ہے اور اس راستے پر جا رہے ہیں، اور راستہ بدلنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اب ان کا عمل ان کے ساتھ ہے، ہمارا عمل ہمارے ساتھ ہے،اب ہم کیا کریں؟ اور دلیل میں یہ پیش کرتے ہیں کہ     حضرت  نوح علیہ السلام کا بیٹا بھی تو آخر کافر رہا اور حضرت نوح علیہ السلام اس کو طوفان سے نہ بچاسکے، اسی طرح ہم نے بہت کوشش کرلی ہے وہ نہیں مانتے تو ہم کیا کریں؟
چنانچہ قرآن کریم نے آیت میں”آگ” کا لفظ استعمال کرکے اس اشکال اور شبہ کا جواب دیا ہے، وہ یہ کہ بات ویسے اصولی طور پر ٹھیک ہے کہ اگر ماں باپ نے اولاد کو بے دینی سے بچانے کی اپنی طرف سے پوری کوشش کرلی ہے تو ان شاء اللہ ماں باپ پھر بری الذمہ ہو جائیں گے اور اولاد کے کیے کا وبال اولاد پر پڑے گا، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ماں باپ نے اولاد کو بے دینی سے بچانے کی کوشش کس حد تک کی ہے؟ اور کس درجے تک کی ہے؟ قرآن کریم نے “آگ ” کا لفظ استعمال کر کے اس بات کی طرف اشارہ کر دیا کہ ماں باپ کو اپنی اولاد کو گناہوں سے
اس طرح بچانا چاہیے جس طرح ان کو آگ سے بچاتے ہیں ۔
فرض کریں کہ ایک بہت بڑی خطر ناک آگ سلگ رہی ہے، جس آگ کے بارے میں یقین ہے کہ اگر کوئی شخص اس آگ کے اندر داخل ہو گیا تو زندہ نہیں بچے گا، اب آپ کا نادان بچہ اس آگ کو خوش منظر اور خوب صورت سمجھ کر اس کی طرف بڑھ رہا ہے، اب بتاو تم اس وقت کیا کرو گے؟ کیا تم اس پر اکتفا کرو گے کہ دور سے بیٹھ کر بچے کو نصیحت کرنا شروع کردو کہ بیٹا! اس آگ میں مت جانا، یہ بڑی خطر ناک چیز ہوتی ہے ،اگر جاو گے تو جل جاو گے اور مر جاو گے؟ کیا ماں باپ صرف زبانی نصیحت پراکتفا کریں گے؟ اور اس نصیحت کے باوجود اگر بچہ اس آگ میں چلا جائے تو کیا وہ ماں باپ یہ کہہ کر بری الذمہ ہو جائیں گے کہ ہم نے تو اس کو سمجھا دیا تھا، اپنا فرض ادا کر دیا تھا، اس نے نہیں مانا اور خود ہی اپنی مرضی سے آگ میں کود گیا تو میں کیا کروں؟ دنیا میں کوئی ماں باپ ایسا نہیں کریں گے، اگر وہ اس بچے کے حقیقی ماں باپ ہیں تو اس بچے کو آگ کی طرف بڑھتا ہوا دیکھ کر ان کی نیند حرام ہو جائے گی، ان کی زندگی حرام ہو جائے گی اور جب تک اس بچے کو گود میں
اٹھا کر اس آگ سے دور نہیں لے جائیں گے اس وقت تک ان کو چین نہیں آئے گا۔
اللہ تعالیٰ یہ فرمارہے ہیں کہ جب تم اپنے بچے کو دنیا کی معمولی سی آگ سے بچانے کے لیے صرف زبانی جمع خرچ پر اکتفا نہیں کرتے تو جہنم کی وہ آگ جس کی حدونہایت نہیں، اور جس کا دنیا میں تصور نہیں کیا جا سکتا، اس آگ سے بچے کو بچانے کے لیے زبانی جمع خرچ کو کافی کیوں سمجھتے ہو؟ لہذا یہ سمجھنا کہ ہم نے انہیں سمجھا کر اپنا فریضہ ادا کر لیا یہ بات آسانی سے کہنے کی نہیں ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کی جو مثال دی جاتی ہے کہ ان کا بیٹا کافر رہا، وہ اس کو آگ سے نہیں بچاسکے، یہ بات درست نہیں، اس لیے کہ یہ بھی تو دیکھو کہ انہوں نے اس کو را ہ راست پر لانے کی نوسو سال تک لگاتار کوشش کی، اس کے باوجود جب راہ راست پر نہیں آیا تو اب ان کے اوپر کوئی مطالبہ اور کوئی مواخذہ نہیں، لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ایک دو مرتبہ کہا اور پھر فارغ ہو کر بیٹھ گئے کہ ہم نے تو کہہ دیا، حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ ان کو گناہوں سے اسی طرح بچاو جس طرح ان کو حقیقی آگ سے بچاتے ہو، اگر اس طرح نہیں بچا رہے ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ فریضہ ادا نہیں ہو رہا ہے، آج تو یہ نظر آرہا ہے کہ اولاد کے بارے میں ہر چیز کی فکر ہے،مثلاً یہ تو فکر ہے کہ بچے کی تعلیم اچھی ہو ، اس کا کیرئیر اچھا بنے، یہ فکر ہے کہ معاشرے میں اس کا مقام اچھا ہو، یہ فکر تو ہے کہ اس کے کھانے پینے اور پہنے کا انتظام اچھا ہو جائے، لیکن دین 
کی فکر نہیں۔
(اصلاحی خطبات، ج ۴، ص۲۷)

غصہ پی جانا سب سے بڑی نیکی ہے

غصہ پی جانا سب سے بڑی نیکی ہے
شدت اظہار کانام غصہ ہے۔ غصہ ایک غیر اختیاری عمل ہے جو ہرانسان میں موجود ہے۔ بعض مقامات پر غصہ ضروری بھی ہے مثلاََ جہاد کرتے وقت اگردشمنان اسلام پر غصہ نہیں آئے گاتو لڑکی کس طرح کریں گے۔صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی: 
شدت اظہار کانام غصہ ہے۔ غصہ ایک غیر اختیاری عمل ہے جو ہرانسان میں موجود ہے۔ بعض مقامات پر غصہ ضروری بھی ہے مثلاََ جہاد کرتے وقت اگردشمنان اسلام پر غصہ نہیں آئے گاتو لڑکی کس طرح کریں گے۔ انسان غصے کی حالت میں اللہ کی ناشکری کرتا ہے اور کفر کے کلمے تک بکنے لگتا ہے اور اپنے ایمان کی دولت کو ختم کرڈالتا ہے اور غصہ ہی اکثر لڑائی، جھگڑا اور فساد کا باعث بنتا ہے حتیٰ کہ اس گصہ کی وجہ سے قتل وغارت تک نوبت جاپہنچی ہے جب آپ کو کسی پر بہت غصہ آئے اور ماردھاڑ اور توڑ پھوڑ کوجی چاہے تو اپنے آپ کو اس طرح سمجھائیں کہ مجھے دوسروں پر جو طاقت قوت حاصل ہے اس سے کہیں زیادہ میرے اللہ کو مجھ پر طاقت، قوت اور قدرت حاصل ہے۔ اگر میں نے غصہ کی حالت کسی انسان کی دل آزادی کرڈالی تو قیامت کے روز اللہ کے غضب سے کیسے بچوں گا۔ 
تنبہیہ الغافلین میں ہے کہ حضرت سیدنا وہب بن منبہ فرماتے ہیں۔ نبی اسرائیل میں ایک بزرگ تھے ایک بار وہ کہیں تشریف لے گئے راستے میں ایک پتھر کی چٹان اوپرکی جانب سرکرسر کے قریب آگئی۔ انھوں نے اللہ کاذکر شروع کردیا تو وہ چٹان دورہٹ گئی پھر خوفناک شیر اور درندے ظاہر ہونے لگے مگر وہ بزرگ نہ گھبرائے اور اللہ کاذکر کرتے رہے۔ جب وہ اللہ کے ولی نماز کیلئے کھڑے ہوئے توایک سانپ ان کے پاؤں سے لپیٹ گیاحتیٰ کہ سارے بدن سے پھرتا ہوا سرتک پہنچا۔ وہ بزرگ سجدے کاارادہ فرماتے تو وہ چہرے سے لپیٹ جاتا وہ سجرے کیلئے سرجھکاتے یہ لقمہ بنانے کیلئے جائے سجدہ پر منہ کھول دیتا مگر اللہ کے ولی اسے ہٹاکر سجدہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے تھے۔جب نماز سے فارغ ہوئے تو شیطان کھل کر سامنے آگیا اور کہنے لگا یہ سار حرکتیں میں نے ہی آپ کے ساتھ کی ہیں آپ بہت ہمت والے ہیں میں آپ سے بہت متاثر ہوا ہوں لہٰذا اب میں نے طے کر لیا ہے کہ آپ کو کبھی نہیں بہکاؤں گا، مہربانی فرماکر آپ مجھ سے دوستی کرلیں،ا س بزرگ نے شیطان کے اس وار کوبھی ناکام بناتے ہوئے فرمایا کہ میں تجھ سے ہرگزدوستی نہیں کروں گا۔ بولااچھا اپنے اہل وعیال کااحوال مجھ سے دریافت کیجئے کہ آپ بعدان پر کیا گزرے گی۔ فرمایا مجھے تجھ سے پوچھنے کی ضرورت نہیں شیطان نے کہاپھر مجھ سے یہی پوچھ لیں کہ میں لوگوں کو کس طرح بہکاتا ہوں۔ فرمایاہاں یہ بتادو بولا میرے تین جال ہیں ابخل۲ غصہ ۳ نشہ۔ 
احیاء العلوم میں ہے کہ ایک شخص دعامانگ رہاتھا کہ اے اللہ! میرے پاس صدقہ خیرات کیلئے کچھ بھی نہیں ہے، بس یہی ہے کہ جو شخص میرے بے عزتی کرے میں اس معاف کردیتا ہوں سرکاردوعالم ﷺ پروحی نازل ہوئی۔ ہم نے اس بندے کو بخش دیا جب آپ کوغصہ آجائے توا ن میں سے کوئی طریقہ اختیار فرمالیں۔ 
اعوذباللہ من اشیطان الرجیم پڑھیں ۲۔ ولاحولا ولا قوة الاباللہ پڑھیں ۳۔ وضو کرلیں ۴۔ کھڑے ہیں تو بیٹھ جائیں بیٹھے ہیں تو لیٹ جائیں ۵۔ جس پر غصہ آرہا ہوں اس کے سامنے سے ہٹ جائیں۶۔ پانی پی لیں ۷۔ خاموش ہوجائیں۔ اللہ ہمیں ہراخلاقی بیماری سے بچائے اور محبت کو توفیق عطا فرمائے۔

کھیرے کے وہ اہم 6 فوائد جن سے ہم اب تک لاعلم تھے

کھیرا ذیا بیطس اورکولیسٹرول کو کم کنٹرول کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے، فوٹو:فائل
قدرت نے ہمیں بے شمار غذائیت سے بھرپور پھلوں، سبزیوں اور دیگر نعمتوں سے نوازا ہے جن کا استعمال اگر ہم اپنی روزمرہ زندگی میں شروع کردیں تو یقیناً ہم بے شمار بیماریوں سے نہ صرف بچ سکتے ہیں بلکہ ایک صحت مند زندگی بھی گزار سکتے ہیں۔
کھیرے کا شمار بھی غذائیت سے بھر پور ایک سبزی میں ہوتا ہے اور عام طور پر اس کا استعمال کھانے کے ساتھ سلاد کے طور پر کیا جاتا ہے تاہم قدرت نے اس میں بھی ہمیں بے شمار غذائی اجزا سے نوازا ہے جو جسم کو مختلف اندرونی اور بیرونی بیماریوں سے بچاتے ہیں۔ آج ہم آپ کو کھیرا کھانے کے 6 اہم فوائد بتارہے ہیں۔
جسم میں پانی کی مقدار کو پورا کرنے کے لیے؛
کھیرے میں 95 فیصد پانی ہوتا ہے جس کی وجہ سے ہمارے جسم میں پانی کی مقدار کو کم نہیں ہونے دیتا اور اس کا روزمرہ استعمال ہمارے جسم میں نہ صرف پانی کی ضروریات کو پورا کرتا ہے بلکہ اس کے علاوہ جسم کے لیے دیگر ضروری دیگر وٹامن بھی فراہم کرتا ہے۔
جلد کی بیماریوں کےلیے؛
بہت سے افراد اپنی چہرے کے حوالے سے بہت حساس ہوتے ہیں اور خاص طور پر خواتین وہ تو اس کی نگہداشت میں کوئی کثر نہیں چھوڑتیں تو کھیرا کھائیں اس سے نہ صرف آپ کی جلد کی خوبصورتی برقرار رہے گی بلکہ یہ آنکھوں کی سوجن اوراس کے گرد بننے والے سیاہ حلقوں کو بھی ختم کرتا ہے اگر کھیرے کو آپ تھوڑی دیر  اپنی آنکھوں پر رکھ لیں تو اس سے سوجن کے ساتھ آنکھوں پربننے والے سیاہ حلقے بھی ختم ہوجائیں گے۔
سرطان سے بچاؤ کے لیے؛
طبی ماہرین کے مطابق کھیرے میں موجود تین اقسام کے اجزا انتہائی اہم ہوتے ہیں اور تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان تینوں اجزا کی وجہ سے سرطان کی بہت سی اقسام کا خطرہ کافی حد تم کم ہوجاتا ہے۔
منہ کی بدبو اور جراثیم ختم کرتا ہے؛
اگر آپ کھیرے کا ایک گول ٹکڑا اپنے ہونٹوں یا منہ پر رکھ کر 30 سیکنڈ تک زبان سے مسلیں تو اس سے نہ صرف  منہ میں موجود بہت سے اقسام کے جراثیم کا خاتمہ ممکن ہے بلکہ یہ  منہ سے آنے والی بدبو کو بھی ختم کردیتا ہے۔
وزن میں کمی کے لیے؛
دبلا یا سلم نظر آنا ہر خواتین کا خواب ہے اور اس کے لیے خواتین طرح طرح کے جتن کرنے میں مصروف نظرآتی ہیں لیکن کھیرے میں  اس مسئلے کا بھی حل موجود ہے لہذا ایسے تمام افراد جو وزن میں کمی چاہتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ کھیرے کا استعمال کریں جب کہ کھیرے کا استعمال قبض کی بیماری سے چھٹکارے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔
ذیابیطس اورکولیسٹرول کو کنٹرول کرتا ہے؛
کھیرے کا رس  لبلبے کو انسولین بنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے جو کہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے انتہائی اہم ہے اسی وجہ سے ذیابیطس کے مریضوں کو کھیرے کا استعمال ضرور کرنا چاہیے جب کہ تحقیق کے مطابق کولیسٹرول کو کم کرنے میں بھی کھیرا اہم کردار ادا کرتا ہے۔

اب ہوگی ’’روبوٹک گلہری‘‘ امریکی فوج کی نئی جاسوس

یہ روبوٹ اتنا ہلکا ہوگا کہ زمینی دستے اسے کمر پر لاد کر بہ آسانی پیش قدمی کرسکیں گے فوٹو: این آر ایل
واشنگٹن: امریکا کی ’’نیول ریسرچ لیبارٹری‘‘ ایک ایسے جاسوس روبوٹ پر کام کررہی ہے جو کسی گلہری کی طرح درختوں پر چڑھنے کے ساتھ چھلانگ بھی لگا سکے گی۔
امریکا کی ’نیول ریسرچ لیبارٹری‘‘ کے ماہرین یہ منصوبہ ’’میسو  اسکیل روبوٹک لوکوموشن انیشی ایٹیو‘‘ یا مختصراً ’’مرلن‘‘ (MeRLIn) کہلاتا ہے، جس کے تحت 10 سے 20 پونڈ وزنی، ایسے روبوٹ تیار کئے جارہے ہیں جن میں پہیوں کے بجائے چار ٹانگیں ہوں گی, یہ اگلی صف کے زمینی دستوں کے لئے دشمن کی جاسوسی اور نگرانی کا کام کرنے کے علاوہ 400 پونڈ وزنی بوجھ بھی اٹھاسکیں گے, اس سلسلے میں اب تک جو پروٹوٹائپ تیار کئے گئے تھے، وہ جسامت میں بہت بڑے اور شور مچانے والے تھے۔ انہیں مختصر اور کم آواز کا حامل بنانے کےلئے جدید ہائیڈرولک نظام تیار کئے جارہے ہیں۔
مرلن کے پروگرام مینیجر مائیک اوسبورن کا کہنا ہے کہ اب تک اس روبوٹ کا جو پروٹوٹائپ تیار کیا گیا ہے وہ جسامت میں بڑی بلی جتنا ہے لیکن اگلے مرحلے پر اس سے بھی چھوٹا اور اتنا ہی طاقتور روبوٹ تیار کیا جائے گا، جو درختوں پر چڑھنے اور چھلانگ لگانے کے قابل تو ہوگا ہی لیکن ساتھ ہی ساتھ بہت کم آواز بھی پیدا کرے گا۔
یہ روبوٹ اتنا ہلکا  ہوگا کہ زمینی دستے اسے کمر پر لاد کر با آسانی پیش قدمی کرسکیں گے اور ضرورت پڑنے پر دشمن کی جاسوسی اور نگرانی میں استعمال بھی کرسکیں گے،اسے خصوصی مواصلاتی نظاموں سے بھی لیس کیا جارہا ہے تاکہ یہ جاسوسی اور نگرانی کی ویڈیو براہِ راست دستوں کو بھیج سکے۔
مائیک اوسبورن کے مطابق پہیوں کے بجائے چار ٹانگوں والے روبوٹ بنانے کا مقصد انہیں ناہموار اور دشوار گزار علاقوں میں بھی استعمال کے قابل بنانا ہے کیونکہ پہیوں والے روبوٹ صرف ہموار زمین پر ہی بہتر کارکردگی دکھاسکتے ہیں۔ البتہ انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ اس روبوٹ کا حتمی ڈیزائن تیار ہونے میں ابھی خاصا وقت درکار ہے۔

بغاوت کے دوران ترک صدر کا انٹرویو کرنے والی خاتون صحافی کو فون کے بدلے تین کروڑ روپے کی پیش کش 18 جولائی


ریاض(نیوز ڈیسک)ترکی میں بغاوت کی خبریں دنیا بھرمیں ایسے پھیلیں جیسے جنگل میں آگ پھیلے۔ایسے وقت میں جب ترکی کا مستقبل داﺅ پر لگا تھا اور دنیا بھر کی نظریں ترک صدر کو ڈھونڈ رہی تھیں ایسے میںسی این این کے ترک ٹی وی کی خاتون صحافی کا موبائل فون طیب اردگان کے قوم سے رابطے کا باعث بنا۔خاتون صحافی تھوڑی ہی دیر میں دنیا بھر میں جانی پہچانی خاتون بن گئیں جسے کئی لوگوں نے سراہا۔خاتون صحافی کے اس فون میں ابو رکان نامی ایک سعودی شہری کو ایسی دلچسپی پیدا ہو گئی کہ اس نے اس فون کے حصول کیلئے بڑا اعلان کردیا۔
روزنامہ پاکستان کی اینڈرائڈ موبائل ایپ ڈاؤن لوڈ کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
عرب نیوز کے مطابق ابورکان نے اس فون کو خریدنے کی خواہش کا اظہا رکرتے ہوئے بغاوت کے دوران ترک صدر کا انٹرویو کرنے والی خاتون صحافی کو تین کروڑ روپے کی پیشکش کی۔انہوں نے اس فون کو ’فون آف فریڈم ‘قرار دیا۔ابورکان نے یہ پیشکش اپنے ٹوئٹر اکاونٹ پر کی ۔اگرچہ کئی لوگوں نے اس ٹویٹ پر مذاق اڑایا لیکن بیشتر افراد نے اس فون کو ایک بہت بڑا انٹرویو قرار دیدیا جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔
خیال رہے کہ ترکی میں بغاوت کے دوران ترک صدر نے سی این این ترک کی ایک صحافی سے رابطہ کر کے اپنے حامیوں کو بغاوت کچلنے کیلئے گھروں سے نکلنے کا مطالبہ کیا تھا

صدرجنرل محمد ضیاء الحق کا حادثہ


17 اگست 1988ء کی شام یہ خبر سن کر پوری قوم حیران، ششدر اور دم بخود رہ گئی کہ صدر مملکت جنرل محمد ضیاء الحق اپنے رفقاء کے ساتھ ایک فضائی حادثے میں جاں بحق ہوگئے ہیں۔
صدرجنرل محمدضیاء الحق ایک نئے امریکی ٹینک کا تجربہ اور آزمائش دیکھنے کے لئے اسی صبح بہاولپور پہنچے تھے۔ پاکستان میں امریکا کے سفیر آرنلڈ رافیل اور ایک امریکی بریگیڈیئر جنرل واسم بھی ان کے ہمراہ تھے۔ امریکی ٹینک کی مشقیں اور فوجی یونٹوں کا معائنہ کرنے کے بعد جنرل ضیاء الحق شام 3 بجکر 48 منٹ پر پاکستان ائیر فورس کے ایک C-130 طیارے میں جسے صدر مملکت کے سفر کی وجہ سے ’’پاک ون‘‘ کا نام دیا گیا تھا واپس اسلام آباد روانہ ہوئے۔ اس طیارے میں جنرل ضیاء الحق کے ہمراہ جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل اختر عبدالرحمن، چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل میاں محمد افضال اور متعدد دوسرے فوجی افسران بھی سفر کررہے تھے۔
ابھی اس طیارے نے ٹیک آف کیا ہی تھا کہ پرواز کے فقط تین منٹ بعد 4 بجکر 51 منٹ پر طیارے کا رابطہ کنٹرول ٹاور سے منقطع ہوگیا اور یہ طیارے ہوا میں قلابازیاں کھاتا ہوا زمین سے ٹکرا گیا۔ زمین پر گرتے ہی طیارے کے ہزاروں ٹکڑے ہوگئے اور ان میں آگ لگ گئی۔ اس کے ساتھ ہی 31 قیمتی جانیں بھی جل کر لقمۂ اجل بن گئیں۔
صدر مملکت اور ان کے رفقا کے فضائی حادثے میں ہلاک ہونے کی خبر پورے ملک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ اسی رات سینیٹ کے چیئرمین غلام اسحاق خان ملک کے قائم مقام صدر بن گئے جنہوں نے جنرل اسلم بیگ کو چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کرنے کا اعلان کردیا۔
تین دن بعد 20 اگست 1988ء کو جنرل محمد ضیاء الحق کو اسلام آباد میں فیصل مسجد کے سایہ تلے دفن کردیا گیا۔
جنرل ضیاء الحق کے طیارے کے حادثہ کی تحقیقات کے لئے پاکستان فضائیہ نے ایک بورڈ آف انکوائری تشکیل دیا۔ اس بورڈ آف انکوائری نے جس کے سربراہ ائیرکموڈور عباس حسین مرزا تھے چند ہفتوں میں اپنی رپورٹ مرتب کرلی۔ رپورٹ کا واحد نتیجہ یہ تھا کہ ’’امکان یہ ہے کہ یہ تخریب کاری کا ایک گھنائونا واقعہ ہے جسے طیارے کے اندر سے روبکار لایا گیا اور جو آخر کار طیارے کے حادثے کا باعث بنا

امام کعبہ نے حرم شریف میں جنرل ضیاء الحق کی امامت میں نماز کیوں ادا کی ؟


جنرل ضیاء الحق کو خانہ کعبہ میں امامت کروانے کا اعزاز اس وقت حاصل ہوا جب عین نماز کے وقت امام کعبہ امامت کے مصلے سے یہ کہتے ہوئے ہٹ گئے کہ مسلمانوں کے امام تو جنرل صاحب آپ ہیں آپ امامت کروائیں پھر جب انہوں نے نماز میں قرآن پاک کی تلاوت شروع کی تو آنکھوں سے آنسووں کی جھڑیاں اور ہچکیاں بندھ گئیں جنرل صاحب خود بھی روئے اور ان کی اقداء میں نماز پڑھنے والوں پر بھی رقعت طاری ہوگئی ۔پھر ایک مرتبہ آپ مسجد نبوی میں روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضر ہوئے ۔ تو گورنر مدینہ نے آپ سے درخواست کی کہ اگر روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اندرجانے کے لیے انہیں بلاوا آئے تو وہ انہیں بھی ساتھ اندر لے جائیں جنرل صاحب نے کہا آپ تو مدینہ کے گورنر ہیں آپ جب چاہیں روضہ رسول میں جاسکتے ہیں گورنر مدینہ نے کہا نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ وہی شخص روضہ مبارک کے اندر جاسکتا ہے جس کو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بلاتے ہیں ۔چنانچہ بلاوا آنے پر روضہ مبارک کا درواز ہ کھول دیاگیا اور جنرل صاحب گورنر مدینہ اور رفقاء کے ساتھ روضہ مبارک کے اندر گئے اور اتنا روئے اتنا روئے کہ ہچکی بندھ گئی امت مسلمہ اور پاکستان کے لیے دعا کرکے جب جنرل ضیا ء الحق روضہ مبارک سے باہر نکلنے لگے تو روضہ اطہر کے دروازے کے چابی برداروں نے جنرل صاحب کا بازو پکڑ لیا اور ان سے کہا کہ دوبارہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک کے اندر جائیں اور سلام عرض کریں اس طرح جنرل ضیاء الحق واحد مسلمان حکمران ہیں جنہیں ایک ہی روز میں دو مرتبہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر جانے کی سعادت حاصل ہوئی ۔یہی نہیں دو مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام جنرل ضیاء الحق کو پہنچایا گیا ایک مرتبہ مولانا فقیر محمد( جو ولی کامل کے مرتبے پر فائز ہیں ) مدینہ شریف میں روضہ مبارک پر مراقبہ ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جنرل ضیاء الحق کو میرا سلام پہنچا دو او ران سے یہ بھی کہہ دو کہ اسلامی نظام کے نفاذ میں دیر نہ کریں ۔پاکستان واپسی پر یہ پیغام مولانا فقیر محمد نے جب جنرل ضیاء الحق کو پہنچایا تو جنرل صاحب کی آنکھوں سے آنسووں کی جھڑی لگی رہی یہی وجہ ہے کہ وہ نفاذ اسلام کے لیے بہت جلدی میں تھے ۔ یہ واقعہ جنرل محمد ضیاء الحق کی شہادت سے آٹھ ماہ پہلے کا ہے

اٹھارہ آدمی مُلک فتح کرتے ہیں​

کیا آپ نے کبھی سُنا ہے کہ صرف اٹھارہ آدمیوں نے ایک بہت بڑی حکومت کی راج دھانی پر قبصہ کر لیا ہو؟
ہندوستان کی اسلامی تاریخ میں ایک ایسا واقع بھی موجود ہے ۔ اور کسی دوسرے ملک میں شائد ہی اس کی نظیر مل سکے ۔ یہ محمد بن بختیار خلیجی کا کارنامہ تھا ، جوہندوستان کے پہلے بادشاہ قطب الدین ایبک کا ایک سردار تھا ۔
محمد بن بختیار کے کارنامے افسانوں سے بھی زیادہ عجیب ہیں ۔ یہ ایک معمولی آدمی تھا ۔ پہلے اُس نے غزنی میں سپاہی بھرتی ہونے کی کوشش کی ، مگر کامیاب نہ ہوا ۔ پھر دہلی پہنچا ۔ یہاں بھی اسے کوئی جگہ نہ مل سکی تو بدایوں کی طرف چلا گیا اسلامی حکومت کی مشرقی سرحد پر تھوڑی سی زمین مل گئی اور اُس نے اپنے طور پر کچھ سوار بھرتی کر لیے
1197ء میں دو سواروں کو لے کر ہلہ بول دیا اور تھوڑے ہی دنوں میں پورے علاقے پر قابص ہو گیا قطبالدین اُس زمانے میں بادشاہ نہ تھا بلکہ سلطان محد غوری کی جانب سے نائب السطنت تھا ۔
اُسے محمد بن بختیار کے اس کارنامے کا علم ہوا تو اعلٰی درجے کا خلعت عطاکیا اور اُس کو فتح کیا ہوئے عاقے کا حاکم بنا دیا ۔
اب محمد بن بختیار کو اپنی مردانگی اور کاردانی کے جوہر دکھانے کا پورا موقع مل گیا اس نے ایک فوج تیار کی اور بنگال کے راجا رائے لکشمن سین کی راج دھانی ندیا کا رُخ کیا ۔ اس کی شہرت پہلے ہی دوردور پھیلی ہوئی تھی ۔ نِکلا تو اس تیزی سے نکلا کے ساری فوج پیچھے رہ گئی ۔ صرف اٹھارہ آدمی ساتھ تھے ۔ اسی طرح وہ شہر میں راجا کے قلعے کے دروازے مینم پہنچ گیا ۔پہنچتے ہی پہرہ داروں پر حملہ کر دیا۔اور فوج کا انتظار نہ کیا ، اسے یقین تھا کہ ساتھیوں کا کی تھوڑی تعداد کا خیال کوئی نہ کرے گا سب یہی سمجھے گے کہ بہت بڑی فوج لے کر آیا ہے بیباکانہ لڑ رہا ہے اس کا یہ خیال بالکل دُرست نکلا ۔
راجا اُس وقت کھانا کھا رہا تھا ۔ باہر سے لوگوں کی چیخ و پکار کان تک پہنچی تو حواش باختہ ہو گیا اور ننگے پاؤں بھاگا اور سُنار گاؤں میں پہنچ کر دم لیا جو کسی زمانے میں ایک بڑا شہر ہوا کرتاتھا اور اب بھی خاصہ مشہور ہے ۔ ڈھاکہ سے کوئی تیرہ کلو میٹر کے فاصلے پر ہوگا ۔ پہلے قدم پر شکست کے بعد راجا کہ لیے کہیں جم کر لڑنے میں کیا صورت تھی ۔ تھوڑے ہی دنوں میں محمد بن بختیار بہار کی طرح پورے بنگال پر قابص ہوگیا اور اپنے کارناموں کی ایسی یادگار چھوڑ‌گیا جو بڑے آدمیوں میں سے بہت تھوڑے انجام دے سکے ہیں

بے وطن شہزادہ سلطنت قائم کرتا ہے



عربوں کے ہاتھوں ہسپانیہ کی تقدیر کا آغاز 92ھ 711ء میں ہوا ۔
لیکن وہاں عربوں کی مسقبل سلطنت کا سنگِ بنیاد عبدالرحٰمن 138ھ 752ء میں رکھا وہ دمشق کہ اموی خلیفہ ہشام بن عبدلملک کا پوتا تھا ۔
عبدالرحمان پانچ سال کا تھا ، جن اُس کہ باپ معاویہ نے وفات پائی
دادا نے یتیم پوتے کو کو نازو نعمت سے پالا ۔ چونکہ اُسے ولی عہد بنانا چاہتا تھا ۔ اس لیے بڑی اعلٰی نعلیم دلائی ۔وہ بیس سال کا ہوا تو خاندان کے اقبال کا سورج ڈوب گیا ۔ حکومت عباسیوں کے قبصے میں چلی گئی ۔ اموی خاندان کے بہت سے لوگ مارے گئے ۔ عبدالرحمان جان بچا کر شام سے نِکلا اور سخت مصائب و خطرات جھیل کر مراکش پہنچا۔ کوئی سامان پاس نہ تھا ۔۔ ایک وفادار غلام کے سوا کوئی آدمی ساتھ نہ تھا ، لیکن جوانمردی اور عالی ہمتی کا یہ عالم تھا کہ نظت تاج و تخت کے سوا کسی چیز پر نہ جمتی تھی ۔
ایک معمولی کشتی میں سوار ہوکر مراکش سے ہسپانیہ پہنچا۔
وہاں کچھ لوگ اموی خاندان کے شہزادے کا نام سُن کر ساتھ ہوگئے ، لیکن قرطبہ کے حاکم نے مقابلے کی ٹھانی ۔ عبدالرحمان نے بے سروسامانی اسے شکست دے دی ۔ پھر سارے اسلام علاقوں کو ایک مرکز کے ماتحت لاکر اس بادشاہی کی بنیاد رکھی جوساڑھے تین سو سال تک قائم رہی ۔ یورپ اس کی ہیبت سے لرزتا تھا ۔اس اموی عہد میں جو عمارتیں بنیں اُن کی نظیر کوئی دوسرا مُلک پیش نہ کرسکا ۔ان میں صرف ایک مسجد باقی ہے اگرچہ اس کی پرانی شان و شوکت ماند پڑ چُکی ہے تاہم اب بھی وہ دنیا کی عبادت گاہوں میں یگانہ مانی جاتی ہے ۔
عبدالرحمان کی عظمت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ باپ دادا کی سلطنت چھن گئی کوئی بھی قابلِ ذکر چیز پاس نہ رہی ۔ بمشکل جان بچا کر وطن سے نِکلا اور بے سرو سامانی کے باوجود نئی سلطنت کا مالک بن گیا ، لیکن اس کی سیرت کا جو پہلو خاص توجہ کا مستحق ہے ! یہ ہے کہ بہت بڑی سلطنت کا فرمانرواہوتے ہوئے بھی عربی سادگی اور بےتکلفی قائم رکھی ۔ ہمیشہ سفید لباس پہنا اور سفید عمامہ باندھتا ۔ شہر میں جِن لوگوں کی بیمار ہونے کی خبر مل جاتی ، وہ امیر ہوتے یا غریب ، سب کی مزاج پرسی کے لیے اُن کے گھروں میں جاتا۔ ہر جنازے کی نماز کی نماز آپ پڑھاتا اور ہر میت کو دفن کرنے میں شریک ہوتا ۔ جو شخص بھی ملاقات کے لیے آجاتا ۔ اس سے بے تکلف ملتا ۔ ہرشکایت پر خود توجہ کرتا اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں بڑے چھوٹے یا طاقتور اور کمزور میں امتیاز کو روانہ رکھتا ۔ ایک بار سوار ہو کر باہر جا رہاتھا ۔ ایک شخض نے اس کے گھوڑے کی باگ تھام کر روک اور کہا کہ جب تک میرا انصاف نہ کرو گے ،ہلنے نہ دونگا عبدالرحمان نے فوراََ قاضی کو بُلوایا اور کھٹرے کھٹرے اپنے سامنے فریادی کا فیصلہ کروا دیا

پہلا ہوائی جہاز اُڑتا ہے


اب انسان چاند پر پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے اور فصائے محیط پر پرواز کرتے ہوئے چاند تک پہنچ جانا سائسندانوں کے لئے اب کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ اس کے امکان کے لئے قیل و قال کی جائے 
بلکہ اب یہ اندازہ کیا جا رہا ہے کہ اس مہم پر کتنا خرچ ہو گا ۔ان حالات میں دلبررائٹ اور آرویل رائٹ کسے یاد رہیں ۔جنہوں نے سب سے پہلے امریکہ میں پرواز کی تھی ۔
جن ان بھائیوں نے فصائے آسمانہ پر پرواز کرنے میں دلچسپی کا اظہار کیا تو صورتِ حال ایسی تھی کہ لوگ زمین اوپر اُٹھنے کے امکانات کو چنداں وقعت نہ دیتے تھے ۔دلبرا اور آرویل نے بہت جلد دریافت کر لیا کہ ہوائی حرکیات کے بارے میں جتنے نظریات موجود ہیں ۔اس میں سے بیشتر اصل مقصد سے ہٹے ہوئے ہیں
انہوں نے خود ایک نل بنایا جس میں پروا کے خود ہی تجربات کرتے رہے ۔وہ دونوں غیر شادی شدہ تھے ۔
دن بھر سائیکل کی دکان پر کام کرتے اور گھر آکر اپنا سارا وقت تجربات میں گزارتے ۔
آخر انہوں نے کنٹرول کا ایک نظام دریافت کرلیا جس کے ذریعے سے ہوا کا دباؤ مشین کے مختلیف حِصوں میں بدلتا رہتا تھا اور اسے رجسڑ کرالیا ۔
ہوا کے نل میں جو تجربات کرتے رہتے تھے ان کی بنا پر انہوں نے قبل ازوقت علان کردیا کہ ہم ہوا میں پرواز کریں گے ،چنانچہ ایک ایسا جہاز تیار کر لیا جس میں ابتدائی تخمینے کے خلاف ایک چوتھائی سے نصف تک قوت ہوتی تھی ۔
ان کا جہاز چار سلنڈر کا تھا ۔
اس میں بارہ گھوڑوں کی طاقت کا انجن لگایا گیا جو پٹرول سے چلتا تھا ایک مسافر کا وزن شامل کر کہ جہاز کا کُل وزن ساڑھے سات سو پونڈ تھا ۔دسمبر 1903 کو یہ جہاز کٹی ہاک پہنچا 17 دسمبر کو آرویل نے اس میں چار مرتبہ پرواز کی ۔
جہاز تقریباََ ایک منٹ پرواز میں رہا اور صرف تیس میل فی گھنٹے کی رفتار سے پرواز کر سکا مگر آجکل تو ہوائی ترقی کر کے کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں