The Daily Mail Urdu

Friday, July 15, 2016

قندیل بلوچ کو قتل کردیا گیا




ملتان (اُردو پ تازہ ترین اخبار۔16جولائی 2016ء): پاکستان کی متنازعہ اداکارہ و ماڈل قندیل بلوچ کو قتل کیے جانے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں
 قندیل بلوچ کو اس کے بھائی نے گلا گھونٹ کر قتل کردیا۔
سی سی پی او ملتان ۔

ایہہ کی ہو گیا جی۔۔۔ کمال نہیں ہو گیا۔۔۔۔ تین گھنٹے کے اندر بغاوت کی کہانی اختتام کو پہنچی۔۔۔۔ اس کو کہتے ہیں عوامی طاقت

ایہہ کی ہو گیا جی۔۔۔ کمال نہیں ہو گیا۔۔۔۔ تین گھنٹے کے اندر بغاوت کی کہانی اختتام کو پہنچی۔۔۔۔
اس کو کہتے ہیں عوامی طاقت
ہیں جی
اردغان نے تو ایک کال دی اور لاکھوں لوگ گھروں سے نکل آئے۔۔۔۔ ایسی کال بھٹؤ سے لے کر نواز شریف تک، پاکستانی منتخب وزراء اعظم کیوں نہ دے سکے۔۔۔ اور اگر وہ کال دیتے تو کیا عوام سڑکوں پر نکلتے، ٹینکوں کا راستہ روکتے۔۔۔۔۔۔۔ یا آئندہ ایسی کسی کال پر کان دھریں گے؟؟؟؟؟؟؟
ہے ناں سوال ملین ڈالر کا!!!!!!!!
لیکن میرے ذہن میں اس سوال سے ہٹ کر بہت کچھ چل رہا ہے۔۔۔ 
اپنی عادت سے مجبور سونے سے قبل ٹوئیٹس دیکھ رہا تھا کہ اچانک ترکی میں فوجی بغاوت کی کوشش کی خبر آئی۔۔۔۔۔۔۔
ٹی آر ٹی ہیڈکوارٹر پر قبضہ اور اس کے بعد مارشل لاء کا اعلان
اور اس کے ساتھ ہی میڈیا اور لبرلز کے کمالات سامنے آنا شروع ہو گئے۔۔۔۔
بی بی سی، سی این این ، فوکس، اے بی سی جیسے ادارے ایسے انداز میں کوریج کر رہے تھے جیسے اردغان کا دھڑن تختہ ہو چکا، اور فوج کو تو اردغان کی قابل بیان اور ناقابل بیاں برائیوں، گناہوں اور جرائم و مظالم کی وجہ سے اقتدار سنبھالنا ہی تھا۔۔۔۔۔۔۔
سارا ویسٹرین میڈیا ایسے منظر کشی کر رہا تھا جیسے پہلے سے فوجی بغاوت کو خوش آمدید کہنے کے لئے تیار بیٹھا تھا۔۔۔۔
اور کیا کہنے ایدھی کی قبر میں رپورٹر کو لٹا کر صحافت کی معراج قائم کرنے والوں کے۔۔۔ انہوں نے ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم کو فوری سابق وزیراعظم قرار دے دیا۔۔۔۔۔ 
یہ سوچے بنا کہ ابھی بن علی یلدرم سمیت کسی بھی ترک رہنما یا آزاد میڈیا نے تختہ الٹنے کی تصدیق نہیں کی۔۔۔۔۔ اور نہ ہی کسی ایک یا دو مقامات پر قبضہ  کرنے سے مستحکم حکومتیں ختم ہوا کرتی ہیں۔۔۔۔
کچھ مفکرین کرام ترک صدر کے بارے میں قیاس آرائیاں کرنے لگے کہ وہ کہاں غائب اور چپ ہیں۔۔۔۔ میں نے چیک کیا تو اردغان ٹوئٹر پر سرگرم تھے۔۔۔۔ کچھ ہی دیر میں وہ فیس ٹائم پر بھی نظر آ گئے ۔۔۔۔ اور ترک عوام سے سڑکوں پر نکلنے کی کال دی۔۔۔۔۔
اور لوگ تو بس اپنے لیڈر کی ایک کال کے منتظر تھے، مساجد سے بھی اعلانات شروع ہو گئے،  سڑکوں پر گاڑیوں اور لوگوں کا اژدھام لگ گیا۔۔۔۔ کوئی ٹینک کا راستہ روک رہا ہے، کوئی ٹینک پر قبضہ کر رہا ہے تو کسی کا رخ ایئرپورٹ کی طرف ہے تاکہ وہاں سے فوجیوں کو بھگا سکے۔۔۔۔۔
ایک تو یہ منظر تھا،،،،، اب ذرا دوسری طرف بھی نظر دوڑاتے ہیں۔۔۔۔
ویسٹرین میڈیا یہ بتا رہا تھا کہ اردغان نے جرمنی میں پناہ کی درخواست کی ہے جو رد کر دی گئی ہے، اب ان کا طیارہ لندن کی طرف بڑھ رہا ہے، نہیں نہیں، وہ ایران جا رہا ہے وہاں پناہ لیں گے۔۔۔۔ اور تو اور۔۔۔۔۔ طیارے کا روٹ اور میپ بھی دکھایا جانے لگا۔۔۔۔۔
اور جو لوگ باغی فوجیوں کے خلاف سڑکوں پرنکلے، ان کی لائیو فیڈ میں خود دیکھ رہا تھا، اللہ اکبر کے نعرے سن رہا تھا، لیکن ویسٹرن میڈیا کافی دیر تک یہی بتانے میں لگا رہا کہ یہ لوگ بغاوت کے حق میں نکلے ہیں اور خوشی سے نعرے لگا رہے ہیں۔۔۔۔
اللہ بخشے ہمارے کچھ جید صحافیوں اور لبرلز کو،،،، اردغان کے اسلام پسند رجحانات کے بغض میں، سب وہی رخ دکھانے لگے جو ترک عوام اور جموریت پسندوں کے خلاف تھا۔۔۔۔
ایک منتخب جمہوری حکومت کے خلاف بغاوت کو انقلاب کا نام دیا جانے لگا، لوگوں کے احتجاج کو بغاوت کے حق میں خوشی کا اظہار بنا دیا گیا۔۔۔۔۔
تقسیم سکوائر سے لے کر فاسفورس پل تک،،،،،، ترک عوام لڑ رہے تھے، اور ہمارے نام نہاد صائب الرائے، صاحب نظر الٹی گنگا بہا رہے تھے ۔۔۔ شاید یہ سوچ کر کہ کسی بھی طرح اردغان کا اسلام پسند چہرہ منظر سے ہٹ جائے۔۔۔۔۔
پاکستان میں فوج کو گالی، ترک باغی فوجیوں کے حامی۔۔۔۔۔۔۔۔ واہ رے لبرلز۔۔۔ کتنے چہرے ہیں تم لوگوں کے۔۔۔۔۔
ترکی کو مصر سے ملایا  جانے لگا، اردغان کا مورسی سے تقابلی جائزہ شروع ہو گیا۔۔۔ اردغان کے جرائم کی طویل فہرست میں نیا جرم شامل کر لیا گیا کہ اس نے فوج کے خلاف عوام کو بغاوت پر اکسانے کے لئے مذہب کا سہارا لیا یعنی مساجد سے اعلانات کرائے۔۔۔

ترکی مصر نہیں نہ اردغان مورسی ہیں۔۔۔ اخوان کا ایک سال کا اقتدار جسٹس پارٹی کے دس سالہ اقتدار سے کوئی مماثلت نہیں رکھتا۔۔۔۔
اور پھر ترکی میں اگر بغاوت کچھ دن کے لئے بھی کامیاب ہو جائے تو ایسی تباہی پھیلے گی کہ شام جیسی بربادی دیکھنے کو ملے گی۔۔۔۔۔
مصر کی طرح چند ہزار مسلمانوں کو شہید کر کے مصنوعی امن قائم کرنے کا اعادہ ترکی میں نہیں ہو سکتا۔۔۔۔
حرف آخر۔۔۔۔۔۔
اوریگون سے تعلق رکھنے والی امریکی صحافی سبل ایڈمنڈز نے چھ ماہ قبل انکشاف کر دیا تھا کہ سی آئی اے اور ناٹو کی طرف سے اردغان کے خلاف بغاوت کرانے کی کوشش ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔۔
آخر امریکہ صاحب بہادر فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے کیوں نہیں کرتا۔۔۔ ترکی کے مطالبے کے باوجود اس کو کیوں پینسلوینیا میں پناہ اور تحفظ فراہم کر رکھا ہے۔۔۔۔۔ تحریر: کرم الٰہی گوندل

الحمد الله ترکی میں دشمنوں کی چال ناکام


انقرہ (ڈیلی میل اُردو اخبارتازہ ترین۔15جولائی۔2016ء) ترک صدر طیب اردگان کی اپیل کے بعد ترکی کی عوام سڑکوں‌پر نکل آئی ہے ملک کے مختلف شہروں مین عوام 
چوراہوں پر جمع ہونا شروع ہو گئی ہے
مساجد سے عوام کو سڑکوں پر نکلنے کی اپیل کی جا رہی ہے۔ وزیراعظم ہاؤس کی جانب بڑھنے والے ٹینکوں کو عوام نے روک لیا۔استنبول کے تقسیم اسکوائر پر عوام بڑی تعداد میں جمع ہونا شروع ہو گئی ہے۔

ترکی میں مارشل لاء لگانے کے ویڈیوز سب سے ہم نے آپ تک پہنچائے



ترکی میں مارشل لاء لگانے کے ویڈیوز سب سے ہم نے آپ تک پہنچائے

ترک فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا، انقرہ ائیرپورٹ اور سرکاری ٹی وی پر بھی قبضہ کر لیا، ایوان صدر گھیر لیا گیا

نقرہ( ڈیلی میل اُردو  اخبارتازہ ترین۔15 جولائی ۔2016ء) ترک فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کی جانب سے موصول ہونے والی تفصیلات کے مطابق ترکی میں فوج کی جانب سے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا ہے۔
ترک فوج نے انقرہ ائیرپورٹ اور سرکاری ٹی وی پر بھی قبضہ کر لیا جبکہ ایوان صدر گھیر لیا گیا ہے۔ دوسری جانب سے سماجی رابطوں کی تمام ویب سائٹس بھی بند کر دی گئی ہیں۔ جبکہ ملک کی دیگر متعدد اہم عمارتوں پر بھی قبضہ کر لیا گیا ہے۔

پاکستان کا قومی ترانہ پہلے کیا تھا اور کس نے لکھا تھا

  پاکستان کا قومی ترانہ پہلے کیا تھا اور کس نے لکھا     تھا

جگن ناتھ آزاد (پیدائش 1918، وفات 2004) اردو کے شاعر تھے، خود ہندو تھے اور پنجابی بھی۔ علامہ اقبال کی شاعری کے جید عالم بھی تھے۔ انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمائش پر پاکستان کا پہلا قومی ترانہ رقم کیا تھا۔ قائد ِاعظم نے نو اگست 1947 کو مسٹرآزاد سے کہا کہ وہ پانچ دن کے اندر قومی ترانہ لکھ لیں۔ جب ترانہ لکھ لیا گیا تو قائد ِ اعظم نے فوری طور پر اس کی منظوری دی اور یہ ترانہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا۔ یہی ترانہ سرکاری سطح پر پاکستان کے قومی ترانہ کے طور پر پہلے ڈیڑھ سال استعمال ہوا۔ لیکن بابائے قوم کی وفات کے بعد اس کو ترک کردیا گیا۔ بعد میں قومی ترانہ کمیٹی نے ابو الاثرحفیظ جالندھری کا لکھا ہوا ترانہ۔۔ پاک سرزمین شاد باد۔۔ اپنایا، جو پہلے سے تیارشدہ دھن پر بنایا گیا تھا۔ 

جگن ناتھ آزاد کے لکھے ہوئے اولین قومی ترانے کے پہلے چند مصرعے یوں تھے:

اے سرزمینِ پاک
ذرے ترے ہیں آج ستاروں سے تابناک
روشن ہے کہکشاں سے کہیں آج تیری خاک
اے سرزمین ِ پاک

کہا جاتا ہے کہ پہلے ترانے کو اس لئے مسترد کر دیا گیا کہ وہ ایک ہندو نے لکھا تھا

نپولین کون تھا کیا آپ جانتے ہے؟



یہ اُس دور کی بات ہے جب نپولین نے روس پر حملہ کیا تھا۔ اُس کے فوجی دستے ایک اور چھوٹے سے قصبے میں جنگ میں مصروف تھے۔ اتفاق سے نپولین اپنے آدمیوں سے بچھڑ گیا۔ کاسک فوج کے ایک دستے نے نپولین کو پہچان لیا اور شہر کی پُرپیچ گلیوں میں اُس کا تعاقب شروع کردیا۔ نپولین اپنی جان بچانے کے لیے دوڑتا ہوا ایک بغلی گلی میں واقع ایک سمور فروش کی دکان میں جا گھسا۔ وہ بری طرح ہانپ رہا تھا۔دکان میں داخل ہونے کے بعد جوں ہی اُس کی نگاہ سمور فرش پر پڑی وہ بے چارگی سے کراہتے ہوئے بولا ’’مجھے بچالو! مجھے بچالو! مجھے کہیں چھپا دو۔‘‘ سمورفروش بولا ’’جلدی کرو! اُس گوشے میںسمور کے ڈھیر کے اندر چھپ جائو!‘‘ پھر اُس نے نپولین کے اوپر اور بہت سے سمور ڈال دیے۔
ابھی وہ اس کام سے فارغ ہوا ہی تھا کہ کاسک فوجی دستہ دندناتا ہوا اُس کی دکان میں آ گھسا اور فوجی چیخنے لگے ’’وہ کہاں ہے؟‘‘ ’’ہم نے اُسے اندر آتے ہوئے دیکھا ہے؟‘‘ سمور فروش کے احتجاج کے باوجود اُن فوجیوں نے سمورفروش کی دکان الٹ پلٹ کر رکھ دی۔ نپولین کی تلاش میں اُنھوں نے دکان کا چپا چپا چھان مارا۔وہ اپنی تلواروں کی نوکیںسمور کے ڈھیر میں گھساتے رہے لیکن نپولین کو تلاش نہ کر پائے۔ بالآخراُنھوں نے اپنی کوشش ترک کر دی اور واپس چلے گئے۔ کچھ دیر بعد جب سکون ہوگیا تو نپولین سمور کے ڈھیر میں سے رینگتا ہوا باہر نکل آیا۔ اُسے کسی قسم کا کوئی گزند نہیں پہنچا تھا۔
عین اُسی لمحے نپولین کے ذاتی محافظ بھی اُسے تلاش کرتے ہوئے وہاں آن پہنچے اور دکان میں داخل ہوگئے۔ سمورفروش کوجب اندازہ ہوگیا کہ اُس نے کس عظیم شخصیت کو پناہ دی تھی تو وہ نپولین کی جانب گھوم گیا اور شرمیلے لہجے میں گویا ہوا ’’میں اتنے عظیم آدمی سے یہ سوال پوچھنے پر معذرت چاہوں گا! لیکن سمور کے اِس ڈھیر کے نیچے جب آپ کو یہ احساس ہو چکا تھا کہ اگلا لمحہ یقینی طور پر آپ کی زندگی کا آخری لمحہ بھی ہو سکتا تھا تو آپ کو کیا محسوس ہوا تھا؟‘‘ نپولین جو اب پوری آن بان کے ساتھ تن کر کھڑا ہوچکا تھا، سمورفروش کے اِس سوال پر غصے میں آگیا اور برہمی سے بولا ’’تمھیں مجھ سے، بادشاہ نپولین سے، یہ سوال کرنے کی ہمت کیوں کر ہوئی؟‘‘
پھر وہ اپنے محافظوں سے مخاطب ہوا ’’محافظو! اس گستاخ شخص کو باہر لے جائو۔ اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دو اور اِسے گولی مار دو! میں بذاتِ خود اس پر فائر کھولنے کا حکم دوں گا۔‘‘ محافظوں نے اُس بے چارے سمور فروش کو دبوچ لیا اور اُسے گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے۔ پھر اُسے ایک دیوار کے ساتھ کھڑا کرکے اُس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی۔ سمورفروش کو کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا، البتہ اُس کے کانوں میں محافظوں کے حرکت کرنے کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں جو دھیرے دھیرے ایک قطار میں کھڑے ہو کر اپنی رائفلیں تیار کر رہے تھے۔
ساتھ ہی اُسے سرد ہوا کے جھونکوںاور کپڑوں کی سرسراہٹ بھی سنائی دے رہی تھی۔ ہوا کے تھپیڑے اُس کے لباس سے ٹکرا رہے تھے اور اُس کے گال یخ ہونا شروع ہو گئے تھے۔ اُس کی ٹانگیں کپکپا رہی تھیں اور وہ اُن پر قابو پانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ تب اُس کے کانوں میں نپولین کی آواز سنائی دی جس نے کھنکارتے ہوئے اپنا گلا صاف کیا اور آہستگی سے بولا ’’ہوشیار… شست باندھ لو۔‘‘ اُس لمحے میں یہ جانتے ہوئے کہ اُس کے تمام احساسات و جذبات اُس سے ہمیشہ کے لیے جدا ہونے والے ہیں، سمورفروش کے اندر ایک ایسا احساس نموپذیر ہونے لگا، جسے بیان کرنے سے وہ قاصر تھا۔اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنے شروع ہو گئے۔
اُسے قدموں کی چاپ سنائی دی جو اُس کی جانب بڑھ رہی تھی۔ جب وہ آواز اُس کے عین نزدیک آ گئی تو کسی نے ایک جھٹکے سے اُس کی آنکھوں پر بندھی پٹی کھول دی۔ اچانک روشنی ہونے سے سمورفروش کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں، تب اُس نے نپولین کو دیکھا جو اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اُس کے مقابل کھڑا تھا۔ اُس نے نپولین کے لب وا ہوتے دیکھے۔ وہ نرم لہجے میں بول رہا تھا ’’اب تمھیں پتاچل گیا؟‘‘

انڈیا میں ’سونے کا آدمی‘ قتل کر دیا گیا

     انڈیا میں ’سونے کا آدمی‘ قتل کر دیا گیا

انڈین پولیس کا کہنا ہے کہ دنیا کی سب سی مہنگی قمیضوں میں سے ایک سونے کی قمیض پہننے والے انڈین شہری کو مبینہ طور پر مار مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔
دتّہ پھوگے نامی یہ شخص سنہ 2003 میں اس وقت مشہور ہوئے جب انھوں نے سونے سے بنی تین کلو گرام وزنی قمیض پہنی تھی جس کی قیمت ڈھائی لاکھ ڈالر کے لگ بھگ تھی۔
ملک کے مغربی شہر پونے سے وابستہ دتّہ پھوگے کو ’سونے کا آدمی‘ کہا جاتا تھا۔
چار افراد کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔
پولیس کو شبہ ہے کہ دتّہ پھوگے کو کسی جھگڑے کی بنا پر قتل کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جمعرات کو 12 افراد نے 48 سالہ دتّہ پھوگے پر حملہ کر کہ انھیں قتل کر دیا۔
ملزمان میں سے ایک نے دتّہ پھوگے اور ان کے 22 سالہ بیٹے کو دِغی کے علاقے میں واقع ایک کھلی جگہ پر کسی کی سالگرہ میں شرکت کرنے کے لیے دعوت دی تھی جہاں پر پھر ان پر پتھروں اور ایک تیز ہتھیار سے وار کیے۔
پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ دتّہ پھوگے کے بیٹے نے اپنے والد کا قتل ہوتے ہوئے دیکھا لیکن مبینہ قاتلوں نے انھیں چھوڑ دیا۔
دتّہ پھوگے اکثر سونے کی انگوٹھیاں، ہار اور کڑے پہنتے تھے۔
انھوں نے سنہ 2013 میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’کچھ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں اتنا سونا کیوں پہنتا ہوں لیکن یہ میری خواہش تھی۔ کچھ امیر لوگ بڑی گاڑیاں رکھتے ہیں، میں نے سونا چنا۔‘

سلطان محمود غزنوی ایک تاریخ ساز شخصیت

سلطان محمود غزنوی ایک تاریخ ساز شخصیت

سلطان محمود غزنوی نے دنیا میں تینتیس 33 سال حکومت کی اور اس وقت کا دنیا کا شجاعت اور دنیا پر اثر و رسوخ رکھنے والا دوسرے نمبر کا بادشاہ تھا۔ پہلے نمبر پر چنگیز خان تھا دوسرے نمبر پر محمود غزنوی تھا تیسرے نمبر پر سکندر یونانی تھا چھوتھے پر تیمور لنگ تھا اور یہ دوسرے نمبر کا بادشاہ تھا سلطان محمود غزنوی۔ 410 ہجری میں سلطان محمود غزنوی کی وفات ہوئی اور دنیا پر تینتیس سال حکومت کی ہے یہ واقعہ سچا اور انفرادی حثیت رکھتا ہے کہ 1974 میں شہر غزنوی میں زلزلہ آیا جس سے سلطان محمود غزنوی کی قبر پھٹ گئی اور مزار بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا تو اس وقت کے افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ مرحوم نے دوبارہ مزار کی تعمیر نو کی اور قبر کو مرمت کروایا۔ تعمیر کے مقصد کے لئے قبر کو پورا کھول دیا گیا کیونکہ قبر نیچے تک پھٹ گئی تھی جب قبر کو کھولا گیا تو قبر کے معمار اور قبر کی زیارت کرنے والے حیران رہ گئے کہ قبر کے اندر سے ہزار سال سے مرے ہوئے اور تابوت کی لکڑی صحیح سلامت ہے سب لوگ حیران اور ورطہ حیرت کا شکار ہوگئے تابوت صحیح سلامت ، ہزار سال گزرنے کے باوجود ، حکام نے تابوت کو کھولنے کا حکم دیا تو جس آدمی نے کھولا تو پلٹ کا پیچے گرا اور بےہوش ہوگیا تو جب پیچھے لوگوں نے آگے بڑھ کر دیکھا تو وہ سلطان جو تینتیس سال حکومت کرکے مرا اور مرے ہوئے ہزار سال گزر چکے ہیں وہ اپنے تابوت میں ایسے پڑا تھا جیسے کوئی ابھی اس کی میت کو رکھ کے گیا ہے اور اس کا سیدھا ہاتھ سینے پر تھا الٹا ہاتھ اور بازو جسم کے متوازی سیدھا تھا اور ہاتھ ایسے نرم جیسے زندہ انسان کے ہوتے ہیں اور ہزار سال مرے بیت چکے ہیں یہ اللہ تعالیٰ نے ایک جھلک دیکھائی کہ جو میرے محبوب کی غلامی اختیار کرتے ہیں وہ بادشاہ بھی ہو گئے تو وہ اللہ کے محبوب بن کے اللہ کے پیارے بن کے اللہ کے دربار میں کامیاب ہو کر پیش ہوگے۔

زندگی مختصر ہے اور وقت تیزی سے گزر رہا ہے وقت کے آگے طاقت ور سے طاقت ور بادشاہ کمزور اور بے بس ہے وقت کو کوئی نہیں روک سکتا لیکن وقت پر جس شخص نے اللہ کی مخلوق کی بہتری، بھلائی اور اللہ کی خوشنودی کو مقدم رکھا وہی شخص مرنے کے بعد بھی لافانی ہے۔

ہٹلر کی دس باتیں جو شاید آپ نہ جانتے ہوں

پہلی جنگ عظیم کے ایک عام سے ڈاکیا فوجی سے دوسری جنگ عظیم کے سب سے اہم کردار ہٹلر کو ہر پڑھا لکھا شخص جانتا ہے لیکن اس کی زندگی کے کچھ دلچسپ گوشے شاید بہت سے لوگ نہ جانتے ہیوں۔

1۔ ہٹلر جرمن نہیں تھا

بلکہ وہ جرمنی کے مشرقی ہمسایہ ملک آسٹروہنگری جو اب آسٹریا ہے وہاں پیدا ہوا اور وہیں تعلیم حاصل کی۔ ماں اور باپ کے مرنے کے بعد وہ ایک ناکام مصور کے طور پر اپنا مستقبل بنانے کی کوشش کرتا رہا۔ لیکن کوئی بہت کم آمدنی کے باعث جوانی کی ابتدا تنگدستی سے ہوئی

2- اسے آسٹریا نے فوج میں بھرتی کرنے سے انکار کر دیا 

جنگ عظیم اول کا آغاز ہوا تو بے روزگاری سے نتگ ہٹلر نے اپنے ملک آسٹریا کی فوج میں بھرتی ہونے کے لیے امتحان دیا لیکن اسے بھرتی کرنے سے انکار کر دیا گیا۔ کمانڈر نے ہٹلر سے کہا تم اتنے کمزور ہو کہ رائفل نہیں اٹھا سکتے جنگ کیا خاک لڑو گے۔

3- وہ اپنے باپ سے نفرت اور ماں سے عشق کرتا تھا

ٹلر نے اپنے باپ کے مرنے کے بعد جلد ہی اس کی قبر پر جانا چھوڑ دیا۔ وہ اس کے سخت گیر رویے کی وجہ سے اس سے نفرت کرتا تھا۔ لیکن اسے اپنی ماں سے بے حد محبت تھی۔ یہاں تک کہ دوسری جنگ عظیم میں جب اس کی شکست یقینی ہو گئی تو وہ ایک زیر زمین بنکر میں جا چھپا۔ اس بنکر میں اس نے خودکشی کر کے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ اس بنکر کے ایک کونے میں ہٹلرنے اپنی ماں کی تصویر لٹکا رکھی تھی۔

5- وہ مصور بننا چاہتا تھا

وقت انسان کو کیا سے کیا بنا دیتا ہے۔ ہٹلر نے آغاز جوانی میں ایک عظیم مصور بننے کا خواب دیکھا۔ ماں باپ کی وفات کے بعد وہ تصویریں بنا کر کھاتی پیتی محفلوں میں بیچ کر روزی روٹی کما رہا تھا۔ لیکن برا ہو آسٹریاہنگری کے ولی عہد پر چلنے والی گولی کا، جس سے پہلی جنگ عظیم چھڑ گئی اور ہٹلر اچھے پیسے کمانے کے لیے فوج میں بھرتی ہو گیا۔ لیکن مصوری کی مہارت رائیگاں نہیں گئی۔ جب اس نے نازی تنظیم کھڑی کی تو اس کا لوگو اور جھنڈا ہٹلر نے اپنے ہاتھ سے تخلیق کیا تھا۔ اپنی فوج کی وردی اور بیجز بھی اسی نے ڈیزائن کیے۔

6- ایک انگلش فوجی، جس کے نشانے پرہٹلر تھا

ہنری ٹینڈی برطانوی فوج کا پیچس چھبیس سالہ جوان تھا۔ جب خندقوں کی لڑائی میں جرمن فوج کو شکست ہوئی اور فوج بھاگنا شروع ہوئی تو ایک موقعے پر ہٹلر ٹھوکر کھا کر گیا۔ اس کے پیچھے برطانوی فوجی تھے جو بھاگتے جرمنوں پر فائر کر رہے تھے۔ ہٹلر لاشوں پر گر گیا۔ چند لمحے بعد اٹھا تو اس کے ہاتھوں میں اسلحہ بھی نہیں تھا۔ اس نے پیھچے مڑ کر دیکھا تو صرف ایک برطانوی فوجی اس پر رائفل تانے کھڑے تھا۔ ہٹلر کی آنکھوں میں شاید موت کے سائے لہرا گئے ہوں۔ لیکن کئی لمحے گزر گئے اور برطانوی فوجی نے فائر نہیں کیا۔ برطانوی فوجی بھی تنہا تھا۔ اس لیے شاید کسی اور طرف سے بھی فائر نہیں آیا۔ کچھ دیر بعد ہٹلر بھانپ گیا کہ برطانوی فوجی اسے نکل جانے کا موقع دے رہا ہے۔ ہٹلر سر نیچا کر کے ایک طرف کو نکل گیا۔ بہت بعد میں جب جنگ عظیم کی تصاویر شائع ہوئیں تو ایک تصویر میں ہٹلر نے ہنری کو پہنچان لیا اور اس کے بارے میں مزید معلومات حاصل کیں۔ دوسری جنگ عظیم سے پہلے ایک بار برطانوی وزیراعظم چیمبرلین جب ہٹلر سے ملنے آیا تو ہٹلر نے ہنری ٹینڈی کا شکریہ ادا کرنے کی درخواست کی۔ چیمنرلین نے ہٹلر سے وعدہ کیا کہ وہ لندن پہنچتے ہیں ہنری کو فون کرے گا اور ہٹلر کے جذبات اس تک پہنچائے گا۔ (گو کہ اس واقعہ کے بارے میں بہت سے شبہات ہیں کیونکہ ہنری کے مطابق اس نے ایک جرمن فوجی کو چھوڑا تو تھا لیکن نہیں معلوم وہ کون تھا) ہنری مختصر مدت کیلئے فوج میں رہا۔ پھر ایک موٹر کمپنی میں ملازم ہو گیا۔ اورچھیاسی برس کی عمر میں مر گیا۔ وصیت کے مطابق اس کی لاش کو جلا کر راکھ برطانیہ میں دفن کر دی گئی

7- وہ کچھ دیر کیلئے اندھا ہو گیا تھا

پہلی جنگ عظیم جو کہ ہٹلر نے ایک عام فوجی کے طور پر لڑی، اس میں وہ اتحادیوں کے کیمیکل ہتھیاروں کا شکار ہوا۔ جس کی وجہ سے کچھ دیر کے لیے وہ اندھا بھی ہو گیا۔ لیکن پھر مختصر علاج کے بعد بصارت ایک بار پھر سے کام کرنے لگی۔

8- ہٹلر کا ممنوعہ عشق

ہٹلر کو اپنی رشتے کی بھتیجی تئیس سالہ گیلی رابا سے عشق ہو گیا تھا۔ گیلی نے ایک بار اپنی ایک دوست سے کہا کہ میرا چچا مجھ سے ایسے ایسے مطالبے کرتا ہے کہ کسی کو بتاؤں تو وہ یقین تک نہ کرے۔ لیکن یہ راز زیادہ دیر تک چھپا نہ رہا اور یہ سکینڈل اخبارات میں دھول اڑانے لگا۔ ہٹلر کی زندگی تلخ ترین ہو گئی۔ ہٹلر کو اپنا سیاسی کیرئر ختم ہوتا نظر آنے لگا۔ اس کے سوشلسٹ مخالفین نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ اس پر طرہ یہ کہ گیلی نے خودکشی کر لی۔ جسے مخالفین نے قتل قرار دیا۔ قریب تھا کہ ہٹلر کا سیاسی کیرئر ختم ہو جاتا لیکن ایسے میں اسے گیلی سے ملتی جلتی شکل کی لڑکی انیس سالہ ایوا براؤن مل گئی۔ کہتے ہیں یہ لڑکی ہٹلر سے عشق کرتی تھی جسے ہٹلر کے فوٹوگرافر نے ہٹلر تک پہچایا۔ ہٹلر نے ایوا براؤن سے شادی کا اعلان کیا اور یہ شادی ہوتے ہی پہلے سکینڈل کی دھول چھٹ گئی۔

9- وہ تقریر سے پہلے تصویریں بنواتا تھا

ہٹلر کی عجیب عادت یہ تھی کہ وہ تقریر سے پہلے مختلف انداز میں تصاویر بنوا کر دیکھتا کہ یہ اس کا انداز کیسا لگ رہا ہے۔ اس کام کیلئے اس نے ایک مستقل فوٹوگرافررکھ چھوڑا تھا۔

10- اس کی عجیب و غریب مونچھوں کی وجہ

سب سے آخر میں یہ بھی جان لیں کہ ہٹلر جیسی مونچھیں جرمنی میں پہلے سے رواج پا چکی تھیں۔ لیکن ہٹلر نے یہ مونچھیں ایک خاص وجہ سے تراشیں۔ وہ وجہ یہ تھی کہ ہٹلر جنگ عظیم اول میں ایک خندق میں چھپا بیٹھا تھا کہ اتحادیوں نے گیس شیل پھینک دیا۔ گیس شیل کے زہریلے دھویں سے بچنے کیلئے ہٹلر نے جب دستیاب ماسک پہننے کی کوشش کی تو وہ اس کی بڑی بڑی مونچھوں سے الجھنے لگا۔ جس پر ہٹلر ماسک نہ پہن سکا اور مجبوراً کئی سیکنڈ تک اسے سانس روکنا پڑا۔ گیس کا اثر ختم ہوتے ہی اس نے لمبا سانس لیا اور جتنی مونچھیں ماسک پہننے میں رکاوٹ بن رہی تھیں وہ اندازے سے کاٹ دیں۔ کیونکہ گیس شیل کسی بھی وقت دوبارہ آ سکتا تھا اور ہٹلر کو زندگی پیاری تھی۔

دہلی کے 18 سالہ ریتیش اگروال کو ایک رات ان کے اپارٹمنٹ سے باہر کر دیا گیا۔ یہ ایک چھوٹا سا ناخوشگوار واقعہ تھا جس نے ان کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا


دہلی کے 18 سالہ ریتیش اگروال کو ایک رات ان کے اپارٹمنٹ سے باہر کر دیا گیا۔ یہ ایک چھوٹا سا ناخوشگوار واقعہ تھا جس نے ان کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔
انھیں مجبوراً ایک ہوٹل میں جانا پڑا اور انھیں ایسی صورت حال سے سابقہ پڑا جس کا وہ پہلے بھی بھارت میں دوران سفر سامنا کر چکے تھے۔
انھوں نے بتایا: ’ریسپشنسٹ سو رہے تھے، کمرے میں ساکٹس کام نہیں کر رہے تھے۔ قالین پھٹے ہوئے تھے، باتھ روم ٹپک رہا تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ آپ کو کارڈ سے بل ادا کرنے کی اجازت بھی نہیں دے رہے تھے۔‘


انھوں نے بتایا:’ میں نے غور کیا کہ اگر یہ میرے لیے مسئلہ ہے تو بہت سے مسافر اس سے دوچار ہوتے ہوں گے۔ آخر بھارت میں اچھا معیاری ہوٹل کا کمرہ مناسب قیمت پر کیوں نہیں ہو سکتا ہے؟‘
چار سال بعد 21 سال کی عمر میں ریتیش اگروال اویو رومز کے بانی اور چیف ايگزیکٹیو ہیں۔ اویو رومز ایک ہزار ہوٹلوں کا ایک نیٹ ورک ہے جو ملک کے 35 شہروں میں سرگرم ہے اور اس کی ماہانہ آمدنی 35 لاکھ امریکی ڈالر ہے اور اس کے تقریبا ایک ہزار ملازمین ہیں۔
یہ کمپنی بغیر برانڈ والے ہوٹلوں کے ساتھ کام کرتی ہے ان کی خدمات کو بہتر بنانے اور ان کے ملازمین کو تربیت دینے کے ساتھ انھیں اپنے نام کے ساتھ ایک برانڈ بھی دیتی ہے اور اس کے بدلے میں ہوٹل سے اس کی آمدنی کا کچھ حصہ لیتی ہے۔
اور اس کے عوض اویو کے برانڈ کی وجہ سے ہوٹل کے کمرے زیادہ تر بھرے رہتے ہیں۔
اپنی تجارت کے لیے انھوں نے ایک ایپ بھی تیار کی ہے جس سے ہوٹل میں آنے والے کمرہ بک کراسکیں، ہوٹل کا راستہ معلوم کر سکیں اور ہوٹل میں پہنچنے کے بعد مختلف خدمات حاصل کرنے کا طریقہ جان سکیں
اس قدر تیزی سے ترقی کے باوجود ان کا کہنا ہے کہ ابتدائی دور بہت مشکل تھا۔ کسی کو اس بات پر اعتبار نہیں ہوتا تھا کہ یہ مستقبل کا ٹیکنالوجی کاروبار ہے۔
لیکن بعض لوگوں کو ان کی بات پر یقین آ گيا اور انھیں اویو رومز جیسے خیال پیش کرنے کے لیے ’تھیل فیلوشپ‘ دی گئی۔ یہ فیلوشپ ابتدائی دور میں فیس بک میں انویسٹ کرنے والے ’پے پال‘ کے شریک بانی کی جانب سے دی جاتی ہے۔ یہ ہر سال 20 ایسے نوجوانوں کو تعلیم چھوڑ کر کاروبار کھڑا کرنے کے لیے دی جاتی ہے۔
انھوں نے فیلوشپ کی جانب سے دی جانے والی رقم کو اپنے کاروبار میں لگایا اور یہ کمپنی دہلی کے پاس گڑگاؤں میں ایک ہوٹل سے سنہ 2013 کے جون مہینے میں 900 امریکی ڈالر ماہانہ کے اخراجات پر قائم ہوئی۔
اگروال نے کہا: ’میں ہی اس ہوٹل کا منیجر، انجینیئر، ریسپشنسٹ ہوتا تھا اس کے ساتھ ہوٹل کے کمروں میں سامان بھی پہنچاتا تھا۔ میں رات کو اپنا ایپ بنانے کے لیے کوڈ لکھا کرتا اور اپنی ویب سائٹ میں بہتری لانے کی کوشش کرتا۔ لیکن اس کے ساتھ میں ایک مضبوط ٹیم بنا رہا تھا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ ہمیں اسے آگے لے جانا ہے۔‘
لیکن وہ اپنے کاروبار میں سرمایہ لگانے والوں کو سستے ہوٹلوں کی خستہ حالت دکھا کر ہی راضی کر سکتے تھے۔
اگروال بتاتے ہیں کس طرح وہ اپنے پہلے سرمایہ کار کو ہوٹل لے گئے اور پھر انھیں دوسرے ہوٹلوں کے مسائل دکھائے اور انھیں ان پر اعتماد ہوا۔
ان کا کہنا ہے کہ اب کاروبار بڑا ہو چکا ہے اور سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے میں زیادہ آسانی ہے۔ حال ہی میں ان کی کمپنی نے جاپان کے سافٹ بینک سے 10 کروڑ دالر حاصل کیا ہے

بھارتی وزیر کو ٹیم کے ہمراہ گندے نالے کی صفائی مہنگی پڑ گئی۔

 تازہ ترین اخبار۔ 15 جولائی 2016ء): بھارتی وزیر کو ٹیم کے ہمراہ گندے نالے کی صفائی مہنگی پڑ گئی۔ تفصیلات کے مطابق ایک بھارتی وزیراعلیٰ اپنی ٹیم کے ہمراہ ایک کشتی پر سوار گندے نالے کی صفائی اپنی نگرانی میں کروا رہے تھے کہ قریباً کنارے پر پہنچنے پر گند صاف کرتے وقت کشتی ٹیڑھی ہوئی جس پر کشتی پر موجود افراد نے بھارتی وزیراعلیٰ کو بچانے کی کوشش کرتے ہوئے ان کا ہاتھ پکڑا لیکن کچھ ہی لمحوں بعد کشتی پوری اُلٹ گئی اور وزیراعلیٰ سمیت کشتی پر سوار تمام افراد گندے نالے میں جا گرے۔

اگرچہ ان وزیر اعلیٰ سے متعلق تو کچھ معلوم نہیں ہو سکا البتہ بھارتی وزیراعلیٰ کی سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو آتے ہی وائرل ہو گئی۔ سوشل میڈیا صارفین نے بھارتی وزیر اعلیٰ کا مذاق اُڑاتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ صاحب کو ٹائی ٹینک پر چڑھنے کی بھلا کیا ضرورت تھی، دیکھا لینے کے دینے پڑ گئے۔

امامِ اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت﷬

عالمِ اسلام کی عہد ساز شخصیت
امامِ اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت﷬ 

 
                                                                                                                                                                                                                           مولانا محمد الیاس گھمن?

کوفہ جس کے دروازوں سے صدیاں گزر چکی ہیں۔ ایسا سنگم ہے جہاں عرب و عجم کی سرحدیں گلے مل رہی ہیں ، یایوں کہیے کہ عربی و عجمی کی باہم برتری و کمتری کی تقسیم و تفریق دم توڑ رہی ہیں۔ اس کے چپے چپے پر سینکڑوں جلیل القدر اصحاب پیغمبر کے حسن خرام کے پھول کھِلے ہیں اس کی ہواؤں میں انفاسِ صحابیت کی خوشبوئیں بَسی ہوئی ہیں۔ اس کے انگ انگ سے فراست و بصیرت انگڑائیاں لے رہی ہیں۔ خلافتِ فاروقی کے مبارک عہد میں اس کی علمی و سیاسی اساس رکھی گئی۔ ایک ہزار پچاس جلیل القدر صحابہ جن میں چوبیس ایسے شیردل مجاہد بھی تھے جو غزوہ بدر میں رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب رہے تھے، کوفہ آئے اور اسے علم و تقویٰ ، عمل و اخلاص ، آداب و اخلاق ،فضل و کمال اور تدبر و سیاست کے موتیوں سے سجادیا۔

جائے ولادت :
ہجرت رسول کو 80 برس بیت چکےتھے، عبد الملک بن مروان کی حکومت تھی اور حجاج بن یوسف عراق کا گورنر تھا۔ اس کے دارالخلافہ کوفہ میں مشیت ایزدی نے یاوری کی اور بشارت نبوی کی پیشن گوئی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوئی ثابت بن زوطی کے گھرانے میں ایک بچے نے آنکھ کھولی جسے دنیا سرتاج الفقہاءسید المحدثین امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت کے نام سے یاد کرتی ہے۔ یہ وہ عہد تھا کہ حالت ایمان میں وجود پیغمبر کی صحبتیں اٹھانے والے (یعنی صحابہ کرام ) میں سے چند بزرگ بھی موجود تھے جن میں سے بعض امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے آغازِ شباب تک اپنے وجود کی برکتیں زمانے کو بانٹتے رہے۔
نام و نسب:
نعمان بن ثابت۔ نُعْمَانْ اصل میں اُس خون کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے بدن کا قِوام ہوتاہے۔اسی طرح آپ رحمہ اللہ کے ذریعے ملت اسلامیہ کا قوام ہے۔یا نعمان بمعنی گل لالہ۔آپ کے فضائل ایسے خوشبودار ہیں جیسے گل لالہ(پاک وصاف کردار کے مالک ہیں،فضائل اس طرح مہکتے ہیں جیسے گل لالہ کی خوشبو مہکتی ہے )
کنیت:
آپ کی کنیت ابوحنیفہ ہے یہ کنیت نسبی نہیں بلکہ وصفی ہے جیسے ابوہریرہ اور ابو تراب وغیرہ چونکہ دین اسلام کانام قرآن نے ملت حنیف بتلایا ہے اسی طرح امام اعظم نے سب سے پہلے اس دین حنیف کی تدوین فرمائی ہے اورعربی محاورہ میں ”اب“کے معنی ہوتے ہیں ”والا“ چونکہ آپ نے دین حنیف کی تدوین فرمائی اس لیے آپ کی کنیت ابوحنیفہ قرارپائی۔
بشارت نبوی:
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں تشریف فرما تھے کہ قرآن کریم کی آیت مبارکہ واٰخرین منہم لما یلحقوا بہم نازل ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا کہ اگر علم / دین / ایمان ثریا ستارے تک بھی پہنچ جائے تو فارس کے کچھ لوگ اسے وہاں سے بھی حاصل کرلیں گے۔ امام جلال الدین سیوطی الشافعی کہتے ہیں کہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بشارت دی ہے اس کا مصداق حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہے۔
حلیہ مبارک:
خطیب بغدادی نے لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ خوبصورت داڑھی، عمدہ کپڑے، اچھے جوتے، خوشبودار اور بھلی مجلس والے رعب دار آدمی تھے۔ آپ کی گفتگو نہایت شیریں، آواز بلند اور صاف ہوا کرتی تھی۔ کیسا ہی پیچیدہ مضمون ہو نہایت صفائی اور فصاحت سے ادا کر تے تھے۔ خوش لباس رہتے تھے۔
بچپن کا زمانہ:
تاریخ نویسوں نے اس وقت کا یوں نقشہ کھینچا ہے : حجاج بن یوسف، خلیفہ عبد الملک کی طرف سے عراق کا گورنر مقرر تھا۔ ہر طرف ظلم و جور کی سنسناہٹ تھی۔ ایک قیامت برپا تھی۔ حجاج کی سفاکیاں تاریخ سے وابستہ ہر شخص کو معلوم ہیں۔خلیفہ عبد الملک 86ھ میں فوت ہوا تو اس کا بیٹا ولید تخت نشین آراءہوا۔
عمر بن عبدالعزیزؒ فرمایا کر تے تھے۔ "ولید شام میں، حجاج عراق میں، عثمان حجاز میں، قرہ مصر میں، واللہ تمام دنیا ظلم سے بھری تھی۔" حجاج 95ھ میں چل بسا۔
96 ھ میں ولید نے بھی یہاں سے کوچ کیا۔ اس کے بعد سلیمان بن عبد الملک مسندِ خلافت پر جلوہ آرا ہوا مورخین کہتے ہیں کہ بنو امیّہ کے حکمرانوں میں سب سے اچھا انسان اور صاحب فضل و کمال تھا۔ سلیمانؒ نے مرتے وقت یہ وصیت لکھی کہ کہ میرے بعد عمر بن عبد العزیزؒ کو تخت نشیں بنایا جائے۔ 99ھ میں سلیمان بھی اپنا وقت پورا کر کے راہی ملک بقا ہوا۔
وصیت کے مطابق عمر بن عبد العزیزؒ مسندِ خلافت پر آئے جن کا عدل و انصاف اور علم و عمل اور اہل علم کی قدردانی تاریخ میں روشن آفتاب کی طرح چمک رہی ہے۔حجاج اور ولید کے دور اقتدار میں آپ رحمہ اللہ نے خز (ایک خاص قسم کے کپڑے) کا کارخانہ قائم کرکے منافع بخش تجارت کی۔
عہد صحابہ میں :
اہل علم نے لکھا ہے کہ 70 صحابہ کرام کا امام صاحب رحمہ اللہ نے زمانہ پایا ہے۔ ان میں سے بعض سے حدیث نقل بھی کی ہے۔ چنانچہ علامہ جلال الدین سیوطی نے ان کے نام بھی درج کیے ہیں۔ حضرت انس بن مالک ، حضرت عبداللہ بن جزءالزبیدی ، حضرت جابر بن عبداللہ ،حضرت معقل بن یسار ، حضرت واثلہ بن اسقع اور حضرت عائشہ بنت عجرد رضی اللہ عنہم۔
تحصیل علم :
سلیمان کے دور اقتدار میں ایک دن امام صاحب بازار جا رہے تھے۔ کوفہ کے مشہور عالم دین امام شعبیؒ نے آپ کو دیکھ لیا اور پوچھا:بیٹا تم کس سے پڑھتے ہو؟" آپ نے نفی میں جواب دیا اس پر امام شعبیؒ نے کہا "مجھے تیرے اندر قابلیت کے جوہر نظر آتے ہیں، تم علماءکی صحبت میں بیٹھا کرو۔" اس نصیحت کے بعد تحصیلِ علم کے لیے کمر بستہ ہوگئے۔اس وقت علم کلام کو حاصل کرنے لیے صرف قدرتی ذہانت اور مذہبی معلومات درکار تھیں۔ قدرت نے امام ابو حنیفہؒ میں یہ تمام باتیں جمع کر دی تھیں۔
اس وقت کے تمام گمراہ فرقوں کے سامنے آپ نے منطقی ، استدلالی اور علمی انداز میں مذہب اسلام کی حقانیت کو دلائل کے ساتھ ثابت کیا اور دین اسلام پر ہونے والے عقلی اعتراضات کو احسن انداز سے دور کیا۔
علم فقہ کا حصول :
اس وقت کوفہ میں امام حماد رحمہ اللہ کا مدرسہ طلباءدین کا مرجع سمجھا جاتا تھا اس کی ابتداءخلیفہ راشد حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے ہوئی تھی۔ اس کے بعد شریح، علقمہ اور مسروق رحمہم اللہ۔
پھر ابراہیم نخعی رحمہ اللہ اور ان کے بعد امام حماد رحمہ اللہ تک اس کی امامت پہنچی۔حضرت علی و عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے فقہ کا جو سلسلہ چلا آتا تھا اس کا مدار انہی پر رہ گیا تھا۔ ان وجوہ سے امام ابو حنیفہؒ نے علمِ فقہ پڑھنا چاہا تو انہی کو منتخب کیا۔
کمال ِذہانت:
شروع شروع میں ایک نئے طالب علم ہونے کی وجہ سے درس میں پیچھے بیٹھتے۔ لیکن چند روز کے بعد جب امام حماد کو تجربہ ہو گیا کہ تمام حلقہ میں ایک شخص بھی حافظہ اور ذہانت میں اس کا ہمسر نہیں ہے تو حکم دے دیا کہ”ابو حنیفہ سب سے آگے بیٹھا کریں۔“
امام حماد کی جانشینی :
خود آپؒ کا بیان ہے کہ "میں دس برس تک حمادؒ کے حلقہ میں ہمیشہ حاضر ہوتا رہا اور جب تک وہ زندہ رہے ان کی شاگردی کا تعلق کبھی نہیں چھوڑا۔ انہی دنوں میرے استاد امام حمادؒ کے ایک رشتہ دار کا انتقال ہوگیا تو وہ مجھے اپنا جانشین بنا کر تعزیت کے لیے سفر پر روانہ ہو گئے۔ چونکہ مجھ کو اپنا جانشین مقرر کر گئے تھے، تلامذہ اور اربابِ حاجت نے میری طرف رجوع کیا۔ بہت سے ایسے مسئلے پیش آئے جن میں استاد سے میں نے کوئی روایت نہیں سنی تھی اس لئے اپنے اجتہاد سے جواب دیئے اور احتیاط کیلئے ایک یادداشت لکھتا گیا۔ دو مہینہ کے بعد حماد بصرہ سے واپس آئے تو میں نے وہ یادداشت پیش کی۔ اس سے میرے استاد بہت زیادہ خوش ہوئے اور بعض معمولی اصلاح بھی فرمائی۔ میں نے عہد کیا کہ حماد رحمہ اللہ جب تک زندہ ہیں ان کی شاگردی کا تعلق کبھی نہ چھوڑوں گا۔"
علم قرآت کا حصول :
سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ آپ رحمہ اللہ نے قرآت امام عاصم رحمہ اللہ سے سیکھی جن کا شمار معروف قراءِ سبعہ میں ہو تا ہے اور انہیں کی قرآت کے مطابق قرآن حفظ کیا۔
حدیث کی تحصیل:
حمادؒ کے زمانہ میں ہی امام صاحبؒ نے حدیث کی طرف توجہ کی کیونکہ مسائلِ فقہ کی مجتہدانہ تحقیق جو امام صاحبؒ کو مطلوب تھی حدیث کی تکمیل کے بغیر ممکن نہ تھی۔ لہذا کوفہ میں کوئی ایسا محدث باقی نہ بچا جس کے سامنے امام صاحبؒنے زانوئے تلمذ تہ نہ کیا ہو اور حدیثیں نہ سیکھیں ہوں۔ اس سلسلے میں آپ نے مکہ مکرمہ کا سفر بھی کیا فن حدیث کے اساتذہ میں سے صحابہ کرام کے خاص معتمد اور فیض یافتہ حضرت عطا ءسے استفادہ کی غرض سے حاضر خدمت ہوئے۔ آپ کی قوت حافظہ اور قوت استدلال کو دیکھ کر حضرت عطاءآپ کو خصوصی توجہ سے نوازتے۔115ھ کو یہ آفتاب علم بھی غروب ہوگیا۔حضرت عطاءکے بعد مکہ مکرمہ میں جن کے علم کا سکہ چلتا تھا ان کا نام عکرمہ ہے یہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے شاگرد تھے۔آپ نے ان سے بھی علم حاصل کیا۔اس کے بعد آپ مدینہ پہنچے تو بطور خاص سلیمانؒ اور سالم بن عبد اللہؒ سے کسب فیض کیا۔ سلیمان ام المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے غلام تھے۔ اور سالمؒ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے پوتے تھے اور اپنے والد بزرگوار سے تعلیم پائی تھی۔ امام ابو حنیفہؒ دونوں بزرگوں کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے حدیثیں روایت کیں۔الغرض امام ابو حنیفہؒ کے اساتذہ کی تعداد محتاط اندازے کے مطابق بقول امام ابو حفص کبیرؒ چار ہزار تک پہنچتی ہے۔ آپ کے اساتذہ آپ سے انتہائی شفقت والا معاملہ فرماتے تھے۔
مسند حماد پر جلوہ آرائی :
امام حمادؒ نے 120ھ میں فوت ہوئے۔ ابراہیم نخعیؒ کے بعد فقہ کا دارو مدارچونکہ امام حماد پر ہی موقوف تھا اس لیے ان کی وفات سے چراغ علم ٹمٹا اٹھا۔ اس صورت حال کے پیش نظر تمام بزرگوں نے متفقاً امام ابو حنیفہ سے درخواست کی کہ مسندِ درس کو زینت بخشیں۔آپ کی عمر چالیس سال تھی۔
مبارک خواب :
تاریخ بغداد اور دیگر کتب میں لکھا ہے کہ اس زمانہ میں آپ نے یہ خواب دیکھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کھود رہے ہیں اور وہاں ہڈیاں جمع کر کے انہیں ترتیب سے رکھ رہے ہیں،یہ خواب دیکھ کر سخت پریشانی ہوئی جب اس کی تعبیر امام ابن سیرین سے پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ خواب دیکھنے والے شخص کو احادیث سے مسائل کے استنباط کی توفیق خاص نصیب ہوگی۔
آپ کے معمولات :
آپ نہایت عبادت گزار تھے کثرت سے نوافل پڑھتے۔ اکثر روزہ سے ہوتے قرآن کریم سے بے حد لگاؤ تھا۔ خوب تلاوت فرماتے آپ کے بارے میں مورخین نے لکھا ہے کہ رمضان المبارک میں 60 مرتبہ قرآن کریم ختم فرماتے جبکہ عام مہینوں میں ایک رات میں مکمل قرآن کریم کا ختم فرماتے ،تہجد گزار تھے ، رات کو اللہ کے حضور اتنا روتے اتنا روتے کہ اس آواز سے پڑوسیوں کو بھی آپ پر ترس آتا۔
آپ کے اوقات کار:
صبح کی نماز کے بعد مسجد میں درس دیتے، دور دور سے استفتا آئے ہوتے۔ ان کے جواب لکھتے۔ پھر تدوینِ فقہ کی مجلس منعقد ہو تی، بڑے بڑے نامور شاگردوں کا مجمع ہوتا۔ پھر ظہر کی نماز پڑھ کر گھر آتے۔ نمازِ عصر کے بعد کچھ دیر تک درس و تعلیم کا مشغلہ رہتا۔ باقی دوستوں سے ملنے ملانے، بیماروں کی عیادت، تعزیت اور غریبوں کی خبر گیری میں صرف ہوتا۔ مغرب کے بعد پھر درس کا سلسلہ شروع ہوتا اور عشاءتک رہتا۔ نمازِ عشاءپڑھ کر عبادت میں مشغول ہوتے اور اکثر رات رات بھر نہ سوتے۔
جذبہ خیر خواہی :
علم کے ساتھ ساتھ خدمت خلق کے جذبے نے آپ کی محبت لوگوں کے دلوں میں پیوست کر دی۔ آپ لوگوں کی مشکلات میں ان کا ہاتھ بٹاتے ، لوگوں کا بوجھ اٹھانے لگے اور ایسے ایسے کام کرنے لگے جن کو کرنے سے دوسرے لوگ عاجز تھے۔مفلس اور نادار لوگوں کی کفالت بھی آپ نے خوب کی۔آپ کی علمی شہرت اور خدمت خلق کے چرچے دنیا بھر میں عام ہونے لگے یہاں تک کہ مکہ، مدینہ، دمشق، بصرہ، مصر، یمن، یمامہ، بغداد، اصفہان، استرآباد، ہمدان، طبرستان، مرجان، نیشاپور ، سرخس، بخارا، سمرقند، کس، صعانیاں، ترمذ، ہرات، خوازم، سبستان، مدائن، حمص وغیرہ۔تک آپ کے علم و فضل اور خدمت خلق کاطوطی بولتا تھا۔
تقویٰ ، عقلمندی اور قدردانی :
آپ کپڑے کے بہت بڑے تاجر تھے۔ آپ نے اپنے شریک حفص بن عبدالرحمان سے کہا کہ فلاں کپڑے میں کچھ عیب ہے لہذا جب تم اسے بیچو تو خریدار کو واضح طور پر اس عیب کا بتلا دینا۔ لیکن جب حفص نے وہ کپڑا بیچا تو خریدار کو عیب کا بتلانے بھول گئے۔ اس واقعے کی جب امام ابو حنیفہ کو خبر ہوئی تو انہوں نے وہ ساری کمائی صدقہ کر دی۔ آپ کے عقلمندی کےبارے میں ائمہ حدیث و فقہ کے بہت سارے اقوال اور واقعات کتب میں ملتے ہیں۔اہل علم کی قدردانی کے بارے میں حجر بن عبدالجبار کہتے ہیں کہ دوستوں اور اہل مجلس کا سب سے زیادہ اکرام و اعزاز کرنے والا شخص میں ابو حنیفہ کے علاوہ نہیں دیکھا۔
افراد سازی :
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کوفہ کی جامع مسجد میں اپنے تلامذہ کو جمع فرمایا اور کہا کہ میں نے تم کو تیار کر دیا ہے اب تم میں سے 40تو ایسے ہیں جو قاضی بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور 10 ایسے ہیں جو قاضی بنانے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔اب تم اٹھو اور سارے عالم میں انصاف وعدل کی بہاریں چلا دو۔چونکہ قانون سازی اور افراد سازی کے لیے محکمہ قضا سے دور رہنا حکمت ودانش کا تقاضا بھی تھا اور مجبوری بھی تھی اس لیے خود علمی کام میں مصروف رہے اور امام ابو یوسف کو چونکہ تیار کرلیا تھا اس لیے وہ چیف جسٹس بن گئے۔
قانون سازی :
امام ابو حنیفہ نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کا اڑھائی سالہ دور حکومت دیکھا اس کے بعد جب یزید بن عبدالملک تخت نشین آرا ہوا تو اس نے کہا عمر بن عبدالعزیز فریب خوردہ شخص تھا اپنے عمال کو حکم جاری کیا کہ آج سے جیسے تین سالہ پہلے کی حالت تھی دوبارہ وہی حالات پیدا کیے جائیں چنانچہ ایسا ہوا بھی لوگ دوبارہ اسی ابتری کا شکار ہوگئے۔امام اعظم ابوحنیفہ نے جب یہ صورتحال دیکھی تو دو بنیادی کاموں کی طرف متوجہ ہوگئے جس سے اسلامی ریاست قائم کی جاسکتی تھی وہ دو بنیادی کام قانون سازی اور افراد سازی کے تھے شریعت کو قانون کی شکل دینے کے لیے پرائیویٹ سطح پر ایک ادارہ قائم کیا جس میں مختلف الانواع علوم وفنون کے ماہرین بٹھائے اور باہمی مباحثے کرائے محتاط اندازے کے مطابق تقریبا83 ہزار دفعات پر مشتمل عملی قوانین مرتب فرمائے،اسی طرح قانون سازی بھی کی گویا فقہ اسلامی کے پہلے مدون امام اعظم ابوحنیفہ ہیں۔
فقہ حنفی چند جزوی مسائل کا نام نہیں بلکہ ایک مضبوط اور مربوط نظام کا نام ہے جس کی بنیاد قرآن وسنت خلفاءراشدین اور صحابہ کرام کے اقول وآثار اور اجتہاد کی بنیاد پر ہے۔اسلامی عقائد کی تعبیر وتشریح میں آپ کا بہت بڑا کردار ہے امام صاحب کے نزدیک فقہ صرف احکام کا نام نہیں بلکہ فقہ النفس جس کو)اخلاقیات یا تصوف(کہتے ہیں فقہ الاحکام اور فقہ العقائد بھی فقہ کے وسیع مفہوم میں شامل ہیں۔
عہدہ قضا سے انکار:
خطیب بغدادی نے روایت کی ہے کہ یزید بن عمر بن ہیبر، والی عراق نے امام ابو حنیفہؒ کو حکم دیا کہ کوفہ کے قاضی بن جائیں لیکن امام صاحب نے قبول نہیں کیا تو اس نے ایک سو دس کوڑے لگوائے۔ روزانہ دس کوڑے لگواتا جب بہت کوڑے لگ چکےامام صاحب قاضی نہ بننے پرڈٹے رہے تو اس نے مجبور ہو کر چھوڑ دیا۔
ائمہ کرام کا خراج تحسین:
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہو اگر وہ اس لکڑی کے ستون کو سونا کا ثابت کرنا چاہے تو دلائل کی قوت سے اسے ثابت کر سکتا ہے اور وہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ کا فرمان موجود ہے کہ اگر کوئی شخص دین کی تفقہ حاصل کرنا چاہے وہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ اورآپ کے اصحاب سے حاصل کرے کیونکہ تمام لوگ فقہ میں ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے عیال ہیں۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں علم و روع اور تقوی کے جس مقام پر ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہے وہاں دنیا کا کوئی شخص نہیں پہنچ سکتا۔
وفات:
146 ھ میں منصور نے قاضی القضاۃ کے عہدہ قبول نہ کر نے کی وجہ سے امام صاحب کو قید کر ڈالا۔ قید خانہ میں ان کا سلسلہ تعلیم بھی برابر قائم رہا۔امام محمد نے جو فقہ کے دستِ بازو ہیں انہوں نے یہاں قید خانہ میں بھی آپ سے تعلیم حاصل کی۔بالآخر رجب 150 ھ میں بادشاہ نے آخری تدبیر یہ اختیار کی کہ ان کو زہر دلوا دیا۔
جب ان کو زہر کا اثر محسوس ہوا تو سجدہ کیا اور اسی حالت میں جاں؛ جانِ آفریں کے سپرد کر دی انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کی کل عمر 70 سال بنتی ہے۔
کفن دفن:
آپ کی وفات کی خبر جنگل میں آگ کی طرح ہر سو پھیل گئی سارا شہر آپ کے جنازے کے لیے امڈ آیا۔قاضی شہر حسن بن عمارہ آپ کو غسل دے رہا تھا اور اس کی زبان پر برابر یہ جاری تھا :
”اے ابو حنیفہ !واللہ!تم سب سے بڑے فقیہ تھے ،سب سے بڑے عبادت گزار تھے ، سب سے بڑے زہد و تقویٰ کے مالک تھے، تم میں تمام خوبیاں پائی جاتی تھیں۔“
امام صاحب رحمہ اللہ نے وصیت کی تھی کہ خیزران میں دفن کئے جائیں۔وصیت کے موافق خیزران کے مشرقی جانب آپ کی قبر تیار کی گئی۔
459 ھ میں سلطان الپ ارسلان سلجوقی نے آپ کی قبر کے قریب ایک مدرسہ تیار کرایا جو ”مشہدِ ابی حنیفہ “کے نام سے مشہور ہے۔

سلطان صلاح الدین ایوبی

سلطان صلاح الدین ایوبی کا سنہرہ قول !

اگر تم نے کسی قوم کو تباہ کرنا ہے تو اس کی نوجوان نسل میں بے حیائی پھیلا دو

  سلطان صلاح الدین ایوبی
آپ کا یہ عظیم قول تاریخ کے آئینے میں :!

یہ تاریخ کا وہ منظر ہے ،جب جولائی 1187ء کو حطین کے میدان میں سات صلیبی حکمرانوں کی متحدہ فوج کو جو مکہ اور مدینے پر قبضہ کرنے آئی تھی ، ایوبی سپاہ نے عبرتناک شکست دے کر مکہ اور مدینہ کی جانب بری نظر سے دیکھنے کا انتقام لے لیا تھا اور اب وہ حطین سے پچیس میل دور عکرہ پر حملہ آور تھا،سلطان صلاح الدین ایوبی نے یہ فیصلہ اِس لیے کیا تھا کہ عکرہ صلیبیوں کا مکہ تھا،سلطان اُسے تہہ تیغ کرکے مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کا انتقام لینا چاہتا تھا،دوسرے بیت المقدس سے پہلے سلطان عکرہ پر اِس لیے بھی قبضہ چاہتا تھا کہ صلیبیوں کے حوصلے پست ہوجائیں گے اور وہ جلد ہتھیار ڈال دیں،چنانچہ اُس نے مضبوط دفاع کے باوجود عکرہ پر حملہ کردیا اور 8جولائی 1187ء کو عکرہ ایوبی افواج کے قبضے میں تھا،اِس معرکے میں صلیبی انٹلیجنس کا سربراہ ہرمن بھی گرفتار ہوا،جسے فرار ہوتے ہوئے ایک کماندار نے گرفتار کیا تھا۔
گرفتاری کے وقت ہرمن نے کماندار کو خوبصورت لڑکیوں اور بہت سے سونا دے کر فرار کرانے پیش کش کی تھی،مگر کماندار نے اُسے رد کردیا،ہرمن کو جب سلطان صلاح الدین ابوبی کے سامنے پیش کیا گیاتو اُس نے گرفتار کرنے والے کماندار کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے سلطان سے کہا”سلطان معظم !اگر آپ کے تمام کماندار اِس کردار کے ہیں جو مجھے پکڑ کر لایا ہے تو میں آپ کو یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ آپ کو بڑی سے بڑی فوج بھی یہاں سے نہیں نکال سکتی،اُس نے کہا، میری نظر انسانی فطرت کی کمزوریوں پر رہتی ہے،میں نے آپ کے خلاف یہی ہتھیار استعمال کیا،میرا ماننا ہے کہ جب یہ کمزوریاں کسی جرنیل میں پیدا ہو جاتی ہیں یا پیدا کردی جاتی ہیں تو شکست اُس کے ماتھے پر لکھ دی جاتی ہے ، میں نے آپ کے یہاں جتنے بھی غدار پیدا کیے، اُن میں سب سے پہلے یہی کمزوریاں پیدا کیں،حکومت کرنے کا نشہ انسانوں کو لے ڈوبتا ہے،سلطان معظم!آپ کے جاسوسی کا نظام نہایت ہی کارگر ہے ،آپ صحیح وقت اور صحیح مقام پر ضرب لگاتے ہیں،مگر میں آپ کو یہ بتا نا چاہتا ہوں کہ یہ صرف آپ کی زندگی تک ہے۔
ہم نے آپ کے یہاں جو بیج بودیا ہے ،وہ ضائع نہیں ہوگا،آپ چونکہ ایمان والے ہیں اِس لیے آپ نے بے دین عناصر کو دبالیا،لیکن ہم نے آپ کے امراء کے دلوں میں حکومت،دولت ،لذت اور عورت کا نشہ بھردیا ہے،آپ کے جانشین اِس نشے کو اتار نہیں سکیں گے اور میرے جانشین اِس نشے کو تیز کرتے رہیں گے۔
سلطان معظم ! یہ جنگ جو ہم لڑرہے ہیں ،یہ میری اور آپ کی ،یا ہمارے بادشاہوں کی اور آپ کی جنگ نہیں،یہ کلیسا اور کعبہ کی جنگ ہے،جو ہمارے مرنے کے بعد بھی جاری رہے گی،اب ہم میدان جنگ میں نہیں لڑیں گے،ہم کوئی ملک فتح نہیں کریں گے،ہم مسلمانوں کے دل و دماغ کو فتح کریں گے،ہم مسلمانوں کے مذہبی عقائد کامحاصرہ کریں گے، ہماری لڑکیاں ،ہماری دولت،ہماری تہذیب کی کشش جسے آپ بے حیائی کہتے ہیں،اسلام کی دیواروں میں شگاف ڈالے گی،پھر مسلمان اپنی تہذیب سے نفرت اور یورپ کے طور طریقوں سے محبت کریں گے،سلطان معظم! وہ وقت آپ نہیں دیکھیں گے ،میں نہیں دیکھوں گا ،ہماری روحیں دیکھیں گی۔”
سلطان صلاح الدین ایوبی،جرمن نژاد ہرمن کی باتیں بڑے غور سے سن رہا تھا،ہرمن کہہ رہا تھا،”سلطان معظم !آپ کو معلوم ہے کہ ہم نے عرب کو کیوں میدان جنگ بنایا ؟ صرف اِس لیے کہ ساری دنیا کے مسلمان اِس خطے کی طرف منہ کرکے عبادت کرتے ہیں اور یہاں مسلمانوں کا کعبہ ہے،ہم مسلمانوں کے اِس مرکز کو ختم کررہے ہیں،آپ آج بیت المقدس کو ہمارے قبضے سے چھڑالیں گے ،لیکن جب آپ دنیا سے اٹھ جائیں گے،مسجد اقصیٰ پھر ہماری عبادت گاہ بن جائے گی،میں جو پیشین گوئی کررہا ہوں ،یہ اپنی اور آپ کی قوم کی فطرت کو بڑی غور سے دیکھ کر کررہا ہوں،ہم آپ کی قوم کو ریاستوں اور ملکوں میں تقسیم کرکے انہیں ایکدوسرے کا دشمن بنادیں گے اور فلسطین کا نام و نشان نہیں رہے گا،یہودیوں نے آپ کی قوم کے لڑکوں اور لڑکیوں میں لذت پرستی کا بیج بونا شروع کردیا ہے،اِن میں سے اب کوئی نور الدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی پیدا نہیں ہوگا۔
اللہ تعالی همکو عقل سلیم اور ایمان کامل عطافرمائے اور دشمن اسلام کی چالوں اور مکاریوں سے پوری امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے.

تحریک پاکستان میں علماﺀ کا روشن کردار



 حریکِ پاکستان اور علمائے دیوبند


……?مولانا محمد مبشر بدر

پاکستان دوقومی نظریے کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آیا۔ اس کی بنیاد اسی وقت سے ہی پڑ گئی تھی جب ملتِ اسلامیہ کے عظیم جرنیل محمد بن قاسم ؒ نے ایک مسلمان بہن کی پکار پر ہندوستان پر لشکر کشی......
کر کے فتح حاصل کی اور ایک عادلانہ حکومت قائم کرکے ہندؤوں کو ان کے حقوق دیے جو اس سے قبل ہندو راجاؤں نے ضبط کیے ہو ئے تھے۔اس حسن سلوک، نیکی اور عدل سے متأثر ہوکر لاکھوں ہندو حلقۂ اسلام میں داخل ہوئے۔ یہ سلسلہ برابر چلتا رہا حتیٰ کہ مسلمانوں کی تعداد کروڑوں تک پہنچ گئی۔ کٹربند ہندؤوں کو اسلام کی پھیلتی روشنی اور ہندوازم کا خاتمہ بالکل برداشت نہیں تھااسی لیے وہ مسلمانوں کے خلاف نفرتوں کے جالے بنتے رہے۔
 جب کہ ادھر سرزمینِ ہند پر ایک بہت بڑی افتاد آن پڑی۔ تجارت کی غرض سے ہند میں وارد ہونے والے انگریزوں نے ہندوستان پر چڑھائی کر کے ناجائز قبضہ جمالیا، مسلمانوں کی مغلیہ حکومت کا خاتمہ کردیا اور ہندوستان میں عیسائیت کی تبلیغ شروع کردی۔ اس یلغار کو روکنے کے لیے علمائے اسلام میدان میں آئے جن میں علمائے دیوبند سرفہرست ہیں جو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ کے خلیفہ اجل سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید رحمہما اللہ کے مشن کے صحیح معنی میں جانشین تھے۔ دارالعلوم دیوبند کی بنیاد کےاساسی مقاصد میں سے علوم اسلامیہ کی اشاعت و ترویج، تزکیہ ٔ نفوس اور انگریز کے خلاف جہاد شامل تھا۔ علمائے دیوبند نے مسلمانوں میں اپنے ملک و ملت کو بچانے کے لیے انگریز کے خلاف جہاد کا شوق و ولولہ پیدا کیا جس کی بدولت انگریز کو ہندوستان سے بھاگنا پڑااور یوں عملا ً تو ہندوستان انگریز کی غلامی سے آزاد ہوگیا لیکن انگریز کے بنائے ہوئےکالے قوانین کی زنجیروں میں ایسی بری طرح جکڑا کہ آج تک ان سے آزاد نہیں ہوسکا۔
انگریز کے چلے جانے کے بعد پاکستان میں ہندو مسلم فسادات شروع ہوگئے جس کی وجہ سے دو قومی نظریے نے قوت پکڑی۔ مسلمان یہ بات اچھی طرح جان گئے تھے کہ انگریز کی مسلط کی ہوئی جمہوریت کی بنا پر ہندو بر بنا اکثریت مسلمانوں پر حکمرانی کریں گے اور مسلمان ہندؤوں کی غلامی میں پستے رہیں گے۔ اس وقت کے موجودہ حالات بھی ہندؤوں کے مکروہ عزائم کی طرف اشارہ کررہے تھے۔ چنانچہ مسلمانوں نے الگ اسلامی ملک کی صدا بلند کی جس میں وہ اسلامی احکامات کو نافذکرکے اسلام کے زیرِ سایہ اپنی زندگی گزار سکیں۔مسلمانوں کی انتھک محنت اور کوشش کے بعد ۱۴ اگست ۱۹۴۷ ء کو پاکستان معرض وجود میں آگیا۔اسلامی سلطنت کے قیام کا خیال جو علامہ اقبال نے۲۹ دسمبر ۱۹۳۰ ؁ءآل انڈیا مسلم لیگ کےاجلاس منعقدہ الٰہ آباد میں اپنے خطبہء صدارت کے دوران ظاہر کیاتھا بالکل وہی خیال ان سے بہت پہلے حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ اپنی مجالسِ عامہ میں کئی بار ظاہر فرما چکے تھے، جس کا تذکرہ مولانا محمد علی جوہر کے دست راز اور کانگریس کے حامی مولانا عبدالماجد دریاآبادی اپنی کتاب ’’ نقوش و تأثرات ‘‘میں بیان کیا ہے۔یہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے بارے ان لوگوں کی گواہی ہے جو کانگریس کے حامی اور نظریہء پاکستان کے مخالف تھے اور خود حضرت تھانوی ؒ سے متعدد بار اسلامی ملک کی تاسیس کے بارےسن چکے تھے۔۲۳ تا ۲۶ اپریل ۱۹۴۳ ؁ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کا دہلی میں اجلاس شروع ہونے والا تھا۔اس تاریخی اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے مسلم لیگ کے ارکان نے حضرت تھانوی ؒ کو ہدایات دینے کے لیے دعوت نامہ بھیجا۔یہ حضرت تھانوی ؒ کی وفات سے تین ماہ قبل کا واقعہ ہے۔بامر مجبوری آپ نے اجلاس میں شرکت سے معذوری ظاہر کرتے ہوئےاپنی ہدایات ایک تاریخی خط میں لکھ کر روانہ فرمادیںجس میں اپنی دو کتابوں ’’حیاۃ المسلمین اور صیانۃ المسلمین ‘‘کی طرف رہنمائی فرمائی : پہلی کتاب شخصی اصلاح اور اور دوسری کتاب معاشرتی نظام کی اصلاح کے لیے تھیں۔ جب مسلم لیگ ۱۹۳۹ ؁ء میں اپنے تنظیمی منصوبے کے تحت صوبوں اور ضلعوں میں از سرِ نو شاخیں قائم کررہی تھی تب حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ اور بعض دیگر اکابر علمائے دیوبندکے مشورہ سے مسلمانانِ ہند کو مسلم لیگ کی حمایت و مدد کرنے کافتویٰ دیا۔ صف علماء سے یہ پہلی آواز تھی جو مسلم لیگ کی حمایت میں بلند ہوئی جس سے مخالفین کی صفوں میں سراسیمگی پھیل گئی کیوں کہ وہ مسلمانانِ ہند میں مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کا اثر و رسوخ اچھی طرح جانتے تھے۔ان کے ہزاروں متوسلین خلفاءجگہ جگہ پھیلے ہوئے تھے۔عین اسی موقع پر جماعت اسلامی نے گانگریس کی حمایت کرکے تحریکِ پاکستان کی تائید کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ’’جب کونسلوں، میونسپلٹیوں میں ہندؤوں سے اشتراکِ عمل جائز ہےتو دوسرے معاملات میں کیوں نہیں؟‘‘۔ دارالعلوم دیوبند کی سیاسی جماعت جمعیت علمائےہند دو حصوں میں تقسیم ہوگئی :ایک جماعت کانگریس کی حامی ہوگئی جس کی سربراہی مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ فرمارہے تھےاور دوسری مسلم لیگ کی حمایت میں کھڑی ہوگئی جس کی صدارت علامہ شبیر احمد عثمانی فرمارہے تھے۔ ان دنوں مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ دارالعلوم دیوبند کے صدر مفتی تھے، حضرت تھانوی ؒ کے خلیفہ مجاز ہونے کی وجہ سے مسلم لیگ اور پاکستان کی حمایت میں تھے۔ اس مسئلے پر دونوں فریقین کے مابین آراء کا اختلاف ہوا، بحث و مباحثہ کی نوبت آئی۔ بالآخر دارالعلوم دیوبند کو اس اختلاف کے اثرات سے دور رکھنے کے لیےعلامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ، مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ اور چند دیگر علمائے کرام نے دارالعلوم سے باضابطہ استعفیٰ دے دیا اور پاکستان کی حمایت میں اپنے اوقات کو آزادانہ وقف کردیا۔بعض مخالفین اس اختلاف کو بیان کرکے اکابر دیوبندکو متہم کرتے اور لوگوں کو علمائے دیوبند اور پاکستان کی حامی جمعیت علمائے اسلام کو پاکستان دشمن قرار دے کر لوگوں کے اذہان پراگندہ کرتے ہیں، یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے جو تعصب کی علامت ہے دونوں اکابر کا اختلاف اخلاص پر مبنی تھا۔ تحریکِ پاکستان کی کامیابی کے لیے یہ بات کافی ہے کہ سب سے پہلے پاکستان کی تائید کرنے والے مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ ہیں۔
 مشرقی پاکستان کا جھنڈا لہرانے والے علامہ ظفر احمد عثمانی ؒ تھے مغربی پاکستان کا جھنڈا لہرانے والے علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ تھے حتی کہ قائدِ اعظم مرحوم نے اپنے مرنے سے پہلے وصیت کی تھی کہ ان کا جنازہ علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ پڑھائیں چنانچہ وصیت کے مطابق علامہ عثمانی رحمہ اللہ نے ہی قائد ِاعظم کا جنازہ پڑھایا جو کہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قائد اعظم سمجھتے تھے کہ علمائے دیوبند کے تعاون کے بغیر پاکستان کا بننا محال تھا۔
 اس میں شک نہیں کہ تحریک پاکستان میں ہر طبقے کی کوششیں شامل رہی ہیں لیکن جو امتیاز علماء دیوبند کو حاصل ہے وہ کسی اور کو نہیں۔تحریک پاکستان میں علماء دیوبند کے کردار کو جان بوجھ کر فراموش کیا جارہا ہے کیونکہ اسلام مخالف سیکولر لابی اس ملک میں اسلامی نظام نہیں چاہتی، تاکہ نئی نسلوں کے ذہن سے یہ مٹ جائے کہ پاکستان کی بنیاد اسلام کے نام پر قائم ہے اور اس میں علماءاسلام کا بہت بڑا کردار ہے۔
خوابوں کی تعبیر 



   خمینی کی ’شیطانِ بزرگ‘ سے دوستی اور دشمنی

27 جنوری 1979 کو اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی آیت اللہ خمینی نے، جو خود امریکہ کو ’شیطانِ بزرگ‘ کہتے تھے، واشنگٹن کو ایک خفیہ پیغام بھیجا تھا۔
ایران میں اسلامی انقلاب کے بانی نے اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر کی انتظامیہ کو بڑے واضح الفاظ میں یہ پیغام بھی دیا تھا: کہ ایران کے فوجی رہنما تمہاری بات سنیں گے لیکن ایران کے عوام صرف میرا حکم مانیں گے۔
خمینی نے یہ تجویز دی تھی کہ اگر صدر کارٹر فوج پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے ان کے اقتدار پر قبضے کو ہموار بنا دیں تو وہ قوم کو پرسکون کر دیں گے۔ استحکام قائم ہو سکتا ہے، ایران میں امریکی مفادات اور شہریوں کو تحفظ ملے گا۔
اس وقت ایران میں ایک واضح افراتفری تھی۔ مظاہرین اور فوجوں کے درمیان جھڑپیں ہو رہی تھیں، دکانیں بند تھیں اور پبلک سروسز معطل تھیں۔ اس کے علاوہ محنت کشوں کی طرف سے ہڑتالوں کی وجہ سے تیل کی ترسیل تقریباً بند ہو چکی تھی جو کہ مغرب کا ایک بڑا مفاد تھا۔
کارٹر کے قائل کرنے پر ایران کے آمر حکمران، محمد رضا شاہ پہلوی جو شاہ کے نام سے مشہور تھے، ’چھٹیاں گزارنے‘ کے لیے ملک سے چلے گئے اور اپنے پیچھے ایک غیر مقبول وزیرِ اعظم اور بکھری ہوئی فوج چھوڑ گئے۔ اس 400,000 افراد پر مشتمل فوج کا زیادہ تر انحصار امریکی اسلحے اور مشاورت پر تھا۔
خمینی کو خوف تھا کہ فوج کی اعلیٰ قیادت ان سے نفرت کرتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ پریشانی کی بات یہ تھی کہ وہ امریکی فضائیہ کے ایک رابرٹ ای ہیوئزر نامی جنرل کے ساتھ روزانہ ملاقاتیں کرتے تھے، جنھیں صدر کارٹر نے ایک پراسرار مشن پر تہران بھیجا تھا۔
آیت اللہ 15 برس جلا وطن رہنے کے بعد وطن واپس آنے کے لیے پر عزم تھے اور چاہتے تھے کہ شاہ کی چھٹیاں مستقل ہو جائیں۔ اس لیے انھوں نے ایک ذاتی درخواست کی تھی۔
انھوں نے اپنے پہلے پیغام میں وائٹ ہاؤس کو کہا کہ وہ اس اہم اتحادی کے جانے پر پریشان نہ ہو جس کے اس کے ساتھ 37 سال سے تعلقات ہیں۔ انھوں نے یہ بھی یقین دہانی کرائی کہ وہ بھی ان کے دوست رہیں گے۔
خمینی نے اپنے پیغام میں کہا کہ ’آپ دیکھیں گے کہ ہماری امریکیوں سے کوئی خاص دشمنی نہیں ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ کی بنیاد ’انسانی ہمدردی پر قائم کی جائے گی، جس سے ساری انسانیت کے امن اور سکون کو فائدہ پہنچے گا۔‘
آیت اللہ خمینی کے پیغام کا یہ حصہ امریکی حکومت کے ڈیکلاسیفائڈ ہونے والے تازہ دستاویزات میں موجود ہے۔ یہ دستاویزات سفارتی پیغامات، پالیسی میموز اور میٹنگز کے ریکارڈز پر مشتمل ہیں جو امریکہ کے خمینی کے ساتھ خفیہ رابطوں کے متعلق بتاتے ہیں۔
ان سے اس بات کا بھی تفصیلی ریکارڈ ملتا ہے کہ کس طرح خمینی نے امریکہ کی طرف احترام اور فرمانبرداری کی زبان استعمال کرتے ہوئے اپنی ایران واپسی کو یقینی بنایا تھا۔ اس سے پہلے کبھی اس کے متعلق نہیں بتایا گیا
آیت اللہ کا پیغام در حقیقت ان کے چیف آف سٹاف اور امریکی حکومت کے درمیان فرانس میں دو ہفتے جاری رہنے والے براہِ راست مذاکرات کا نتیجہ ہے۔ اس عمل سے خمینی کے ایران واپس آنے میں کافی مدد ملی تھی۔
ایران کے انقلاب کے سرکاری بیانیہ کے مطابق خمینی نے امریکہ کی جارحانہ انداز میں مخالفت کی تھی اور شاہ کو اقتدار میں رکھنے کی ’شیطانِ بزرگ‘ کی کوششوں کو شکست دی تھی۔
لیکن دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ خمینی امریکہ کے ساتھ اس سے بہت زیادہ رابطے میں تھے جتنا کہ دونوں حکومتیں تسلیم کرتی ہیں۔ امریکہ کی مخالفت کی بات تو دور آیت اللہ کارٹر انتظامیہ سے پینگے بڑھا رہے تھے، ایسے اشارے کر رہے تھے کہ وہ ڈائیلاگ کرنا چاہتے ہیں اور اسلامی جمہوریہ کو اس طرح پیش کر رہے تھے کہ وہ امریکی مفادات کے لیے بہتر ہے۔
آج تک کارٹر انتظامیہ کہتی رہی ہے کہ واشنگٹن شاہِ ایران اور ان کی حکومت کی پشت پناہی کر رہی تھا۔
لیکن دستاویزات کے مطابق شاہ کے ایران چھوڑنے کے دو دن بعد ہی امریکہ نے خمینی کو بتایا دیا تھا کہ وہ اصولی طور پر ایران کے آئین میں ترمیم کے خیال کے لیے تیار ہیں جس سے حتمی طور پر بادشاہت ختم ہو جانی تھی۔ اور انھوں نے آیت اللہ کو ایک اہم اطلاع بھی دی تھی کہ ایران کی فوج کے رہنما ملک کے سیاسی مستقبل کے متعلق لچک رکھتے تھے۔
چار دہائیوں پہلے امریکہ اور خمینی کے درمیان جو ہوا وہ صرف ایک سفارتی تاریخ نہیں تھی۔ امریکہ کی آج تک یہ خواہش رہی ہے کہ وہ جنھیں اسلامی جمہوریہ ایران میں موجود حقیقت پسندانہ عناصر سمجھتا ہے ان سے سودے بازی کرتا رہے۔
حال ہی میں سامنے آنے والے سی آئی اے کے دستاویزات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ نومبر 1963 میں خمینی نے تہران میں اپنی گھر میں نظر بندی کے دوران کینیڈی انتظامیہ کو حمایت کا ایک پیغام بھیجا تھا۔
سنہ 2008 میں سامنے آنے والے 1980 کے سی آئی اے کے ایک تجزیے کے مطابق جس کا ٹائٹل ’ایران میں اسلام‘ تھا خمینی نے واضح کیا تھا کہ وہ ایران میں امریکی مفادات کے خلاف نہیں ہیں۔
خمینی نے امریکہ کو بتایا تھا کہ وہ امریکی موجودگی کو ضروری سمجھتے ہیں تاکہ سویت اور برطانوی اثر کو کم کیا جا سکے۔
سفارتخانے کی وہ کیبل جس میں خمینی کا مکمل پیغام ہے ابھی تک کلاسیفائیڈ ہے اور خفیہ رکھی جا رہی ہے۔

یہ معلوم نہیں کہ صدر کینیڈی نے یہ پیغام کبھی دیکھا بھی تھا کہ نہیں کیونکہ دو ہفتے بعد انھیں ٹیکساس میں قتل کر دیا گیا تھا۔
ایک سال بعد خمینی کو ایران سے نکال دیا گیا۔ اس مرتبہ انھوں نے شاہ پر نیا حملہ کیا تھا جو کہ ایران میں موجود امریکی فوجیوں کو عدالتی استثنیٰ میں توسیع دینے کے خلاف تھا۔
انھوں نے جلا وطنی سے کچھ پہلے اعلان کیا تھا کہ ’امریکی صدر کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ان سے ہماری قوم سب سے زیادہ نفرت کرتی ہے۔‘
پندرہ برس بعد خمینی پیرس پہنچ گئے۔ وہ ایران میں نئی تحریک کے رہنما تھے جو بادشاہت کو ختم کرنے والی تھی۔ انھیں فتح کے اتنا قریب ہونے کے باوجود امریکہ کی ضرورت تھی۔
خمینی نے ایک مرتبہ امریکیوں کے اس خدشے کو دور کرتے ہوئے واشنگٹن بھیجے گئے ایک پیغام میں لکھا تھا کہ ’جو بھی ہم سے صحیح قیمت پر تیل خریدا گا ہم اسے بیچیں گے۔‘
’اسلامی جمہوریہ قائم ہونے کے بعد دو ممالک، جنوبی افریقہ اور اسرائیل، کے علاوہ (سب کے لیے) تیل کا بہاؤ جاری رہے گا۔‘
پیغام میں خمینی نے لکھا کہ ’ملک کی ترقی کے لیے ایران کو دوسروں کی امداد کی ضرورت ہے، خصوصاً امریکیوں کی