The Daily Mail Urdu

Friday, July 15, 2016

ایہہ کی ہو گیا جی۔۔۔ کمال نہیں ہو گیا۔۔۔۔ تین گھنٹے کے اندر بغاوت کی کہانی اختتام کو پہنچی۔۔۔۔ اس کو کہتے ہیں عوامی طاقت

ایہہ کی ہو گیا جی۔۔۔ کمال نہیں ہو گیا۔۔۔۔ تین گھنٹے کے اندر بغاوت کی کہانی اختتام کو پہنچی۔۔۔۔
اس کو کہتے ہیں عوامی طاقت
ہیں جی
اردغان نے تو ایک کال دی اور لاکھوں لوگ گھروں سے نکل آئے۔۔۔۔ ایسی کال بھٹؤ سے لے کر نواز شریف تک، پاکستانی منتخب وزراء اعظم کیوں نہ دے سکے۔۔۔ اور اگر وہ کال دیتے تو کیا عوام سڑکوں پر نکلتے، ٹینکوں کا راستہ روکتے۔۔۔۔۔۔۔ یا آئندہ ایسی کسی کال پر کان دھریں گے؟؟؟؟؟؟؟
ہے ناں سوال ملین ڈالر کا!!!!!!!!
لیکن میرے ذہن میں اس سوال سے ہٹ کر بہت کچھ چل رہا ہے۔۔۔ 
اپنی عادت سے مجبور سونے سے قبل ٹوئیٹس دیکھ رہا تھا کہ اچانک ترکی میں فوجی بغاوت کی کوشش کی خبر آئی۔۔۔۔۔۔۔
ٹی آر ٹی ہیڈکوارٹر پر قبضہ اور اس کے بعد مارشل لاء کا اعلان
اور اس کے ساتھ ہی میڈیا اور لبرلز کے کمالات سامنے آنا شروع ہو گئے۔۔۔۔
بی بی سی، سی این این ، فوکس، اے بی سی جیسے ادارے ایسے انداز میں کوریج کر رہے تھے جیسے اردغان کا دھڑن تختہ ہو چکا، اور فوج کو تو اردغان کی قابل بیان اور ناقابل بیاں برائیوں، گناہوں اور جرائم و مظالم کی وجہ سے اقتدار سنبھالنا ہی تھا۔۔۔۔۔۔۔
سارا ویسٹرین میڈیا ایسے منظر کشی کر رہا تھا جیسے پہلے سے فوجی بغاوت کو خوش آمدید کہنے کے لئے تیار بیٹھا تھا۔۔۔۔
اور کیا کہنے ایدھی کی قبر میں رپورٹر کو لٹا کر صحافت کی معراج قائم کرنے والوں کے۔۔۔ انہوں نے ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم کو فوری سابق وزیراعظم قرار دے دیا۔۔۔۔۔ 
یہ سوچے بنا کہ ابھی بن علی یلدرم سمیت کسی بھی ترک رہنما یا آزاد میڈیا نے تختہ الٹنے کی تصدیق نہیں کی۔۔۔۔۔ اور نہ ہی کسی ایک یا دو مقامات پر قبضہ  کرنے سے مستحکم حکومتیں ختم ہوا کرتی ہیں۔۔۔۔
کچھ مفکرین کرام ترک صدر کے بارے میں قیاس آرائیاں کرنے لگے کہ وہ کہاں غائب اور چپ ہیں۔۔۔۔ میں نے چیک کیا تو اردغان ٹوئٹر پر سرگرم تھے۔۔۔۔ کچھ ہی دیر میں وہ فیس ٹائم پر بھی نظر آ گئے ۔۔۔۔ اور ترک عوام سے سڑکوں پر نکلنے کی کال دی۔۔۔۔۔
اور لوگ تو بس اپنے لیڈر کی ایک کال کے منتظر تھے، مساجد سے بھی اعلانات شروع ہو گئے،  سڑکوں پر گاڑیوں اور لوگوں کا اژدھام لگ گیا۔۔۔۔ کوئی ٹینک کا راستہ روک رہا ہے، کوئی ٹینک پر قبضہ کر رہا ہے تو کسی کا رخ ایئرپورٹ کی طرف ہے تاکہ وہاں سے فوجیوں کو بھگا سکے۔۔۔۔۔
ایک تو یہ منظر تھا،،،،، اب ذرا دوسری طرف بھی نظر دوڑاتے ہیں۔۔۔۔
ویسٹرین میڈیا یہ بتا رہا تھا کہ اردغان نے جرمنی میں پناہ کی درخواست کی ہے جو رد کر دی گئی ہے، اب ان کا طیارہ لندن کی طرف بڑھ رہا ہے، نہیں نہیں، وہ ایران جا رہا ہے وہاں پناہ لیں گے۔۔۔۔ اور تو اور۔۔۔۔۔ طیارے کا روٹ اور میپ بھی دکھایا جانے لگا۔۔۔۔۔
اور جو لوگ باغی فوجیوں کے خلاف سڑکوں پرنکلے، ان کی لائیو فیڈ میں خود دیکھ رہا تھا، اللہ اکبر کے نعرے سن رہا تھا، لیکن ویسٹرن میڈیا کافی دیر تک یہی بتانے میں لگا رہا کہ یہ لوگ بغاوت کے حق میں نکلے ہیں اور خوشی سے نعرے لگا رہے ہیں۔۔۔۔
اللہ بخشے ہمارے کچھ جید صحافیوں اور لبرلز کو،،،، اردغان کے اسلام پسند رجحانات کے بغض میں، سب وہی رخ دکھانے لگے جو ترک عوام اور جموریت پسندوں کے خلاف تھا۔۔۔۔
ایک منتخب جمہوری حکومت کے خلاف بغاوت کو انقلاب کا نام دیا جانے لگا، لوگوں کے احتجاج کو بغاوت کے حق میں خوشی کا اظہار بنا دیا گیا۔۔۔۔۔
تقسیم سکوائر سے لے کر فاسفورس پل تک،،،،،، ترک عوام لڑ رہے تھے، اور ہمارے نام نہاد صائب الرائے، صاحب نظر الٹی گنگا بہا رہے تھے ۔۔۔ شاید یہ سوچ کر کہ کسی بھی طرح اردغان کا اسلام پسند چہرہ منظر سے ہٹ جائے۔۔۔۔۔
پاکستان میں فوج کو گالی، ترک باغی فوجیوں کے حامی۔۔۔۔۔۔۔۔ واہ رے لبرلز۔۔۔ کتنے چہرے ہیں تم لوگوں کے۔۔۔۔۔
ترکی کو مصر سے ملایا  جانے لگا، اردغان کا مورسی سے تقابلی جائزہ شروع ہو گیا۔۔۔ اردغان کے جرائم کی طویل فہرست میں نیا جرم شامل کر لیا گیا کہ اس نے فوج کے خلاف عوام کو بغاوت پر اکسانے کے لئے مذہب کا سہارا لیا یعنی مساجد سے اعلانات کرائے۔۔۔

ترکی مصر نہیں نہ اردغان مورسی ہیں۔۔۔ اخوان کا ایک سال کا اقتدار جسٹس پارٹی کے دس سالہ اقتدار سے کوئی مماثلت نہیں رکھتا۔۔۔۔
اور پھر ترکی میں اگر بغاوت کچھ دن کے لئے بھی کامیاب ہو جائے تو ایسی تباہی پھیلے گی کہ شام جیسی بربادی دیکھنے کو ملے گی۔۔۔۔۔
مصر کی طرح چند ہزار مسلمانوں کو شہید کر کے مصنوعی امن قائم کرنے کا اعادہ ترکی میں نہیں ہو سکتا۔۔۔۔
حرف آخر۔۔۔۔۔۔
اوریگون سے تعلق رکھنے والی امریکی صحافی سبل ایڈمنڈز نے چھ ماہ قبل انکشاف کر دیا تھا کہ سی آئی اے اور ناٹو کی طرف سے اردغان کے خلاف بغاوت کرانے کی کوشش ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔۔
آخر امریکہ صاحب بہادر فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے کیوں نہیں کرتا۔۔۔ ترکی کے مطالبے کے باوجود اس کو کیوں پینسلوینیا میں پناہ اور تحفظ فراہم کر رکھا ہے۔۔۔۔۔ تحریر: کرم الٰہی گوندل

No comments:

Post a Comment