The Daily Mail Urdu

Friday, July 15, 2016

تحریک پاکستان میں علماﺀ کا روشن کردار



 حریکِ پاکستان اور علمائے دیوبند


……?مولانا محمد مبشر بدر

پاکستان دوقومی نظریے کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آیا۔ اس کی بنیاد اسی وقت سے ہی پڑ گئی تھی جب ملتِ اسلامیہ کے عظیم جرنیل محمد بن قاسم ؒ نے ایک مسلمان بہن کی پکار پر ہندوستان پر لشکر کشی......
کر کے فتح حاصل کی اور ایک عادلانہ حکومت قائم کرکے ہندؤوں کو ان کے حقوق دیے جو اس سے قبل ہندو راجاؤں نے ضبط کیے ہو ئے تھے۔اس حسن سلوک، نیکی اور عدل سے متأثر ہوکر لاکھوں ہندو حلقۂ اسلام میں داخل ہوئے۔ یہ سلسلہ برابر چلتا رہا حتیٰ کہ مسلمانوں کی تعداد کروڑوں تک پہنچ گئی۔ کٹربند ہندؤوں کو اسلام کی پھیلتی روشنی اور ہندوازم کا خاتمہ بالکل برداشت نہیں تھااسی لیے وہ مسلمانوں کے خلاف نفرتوں کے جالے بنتے رہے۔
 جب کہ ادھر سرزمینِ ہند پر ایک بہت بڑی افتاد آن پڑی۔ تجارت کی غرض سے ہند میں وارد ہونے والے انگریزوں نے ہندوستان پر چڑھائی کر کے ناجائز قبضہ جمالیا، مسلمانوں کی مغلیہ حکومت کا خاتمہ کردیا اور ہندوستان میں عیسائیت کی تبلیغ شروع کردی۔ اس یلغار کو روکنے کے لیے علمائے اسلام میدان میں آئے جن میں علمائے دیوبند سرفہرست ہیں جو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ کے خلیفہ اجل سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید رحمہما اللہ کے مشن کے صحیح معنی میں جانشین تھے۔ دارالعلوم دیوبند کی بنیاد کےاساسی مقاصد میں سے علوم اسلامیہ کی اشاعت و ترویج، تزکیہ ٔ نفوس اور انگریز کے خلاف جہاد شامل تھا۔ علمائے دیوبند نے مسلمانوں میں اپنے ملک و ملت کو بچانے کے لیے انگریز کے خلاف جہاد کا شوق و ولولہ پیدا کیا جس کی بدولت انگریز کو ہندوستان سے بھاگنا پڑااور یوں عملا ً تو ہندوستان انگریز کی غلامی سے آزاد ہوگیا لیکن انگریز کے بنائے ہوئےکالے قوانین کی زنجیروں میں ایسی بری طرح جکڑا کہ آج تک ان سے آزاد نہیں ہوسکا۔
انگریز کے چلے جانے کے بعد پاکستان میں ہندو مسلم فسادات شروع ہوگئے جس کی وجہ سے دو قومی نظریے نے قوت پکڑی۔ مسلمان یہ بات اچھی طرح جان گئے تھے کہ انگریز کی مسلط کی ہوئی جمہوریت کی بنا پر ہندو بر بنا اکثریت مسلمانوں پر حکمرانی کریں گے اور مسلمان ہندؤوں کی غلامی میں پستے رہیں گے۔ اس وقت کے موجودہ حالات بھی ہندؤوں کے مکروہ عزائم کی طرف اشارہ کررہے تھے۔ چنانچہ مسلمانوں نے الگ اسلامی ملک کی صدا بلند کی جس میں وہ اسلامی احکامات کو نافذکرکے اسلام کے زیرِ سایہ اپنی زندگی گزار سکیں۔مسلمانوں کی انتھک محنت اور کوشش کے بعد ۱۴ اگست ۱۹۴۷ ء کو پاکستان معرض وجود میں آگیا۔اسلامی سلطنت کے قیام کا خیال جو علامہ اقبال نے۲۹ دسمبر ۱۹۳۰ ؁ءآل انڈیا مسلم لیگ کےاجلاس منعقدہ الٰہ آباد میں اپنے خطبہء صدارت کے دوران ظاہر کیاتھا بالکل وہی خیال ان سے بہت پہلے حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ اپنی مجالسِ عامہ میں کئی بار ظاہر فرما چکے تھے، جس کا تذکرہ مولانا محمد علی جوہر کے دست راز اور کانگریس کے حامی مولانا عبدالماجد دریاآبادی اپنی کتاب ’’ نقوش و تأثرات ‘‘میں بیان کیا ہے۔یہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے بارے ان لوگوں کی گواہی ہے جو کانگریس کے حامی اور نظریہء پاکستان کے مخالف تھے اور خود حضرت تھانوی ؒ سے متعدد بار اسلامی ملک کی تاسیس کے بارےسن چکے تھے۔۲۳ تا ۲۶ اپریل ۱۹۴۳ ؁ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کا دہلی میں اجلاس شروع ہونے والا تھا۔اس تاریخی اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے مسلم لیگ کے ارکان نے حضرت تھانوی ؒ کو ہدایات دینے کے لیے دعوت نامہ بھیجا۔یہ حضرت تھانوی ؒ کی وفات سے تین ماہ قبل کا واقعہ ہے۔بامر مجبوری آپ نے اجلاس میں شرکت سے معذوری ظاہر کرتے ہوئےاپنی ہدایات ایک تاریخی خط میں لکھ کر روانہ فرمادیںجس میں اپنی دو کتابوں ’’حیاۃ المسلمین اور صیانۃ المسلمین ‘‘کی طرف رہنمائی فرمائی : پہلی کتاب شخصی اصلاح اور اور دوسری کتاب معاشرتی نظام کی اصلاح کے لیے تھیں۔ جب مسلم لیگ ۱۹۳۹ ؁ء میں اپنے تنظیمی منصوبے کے تحت صوبوں اور ضلعوں میں از سرِ نو شاخیں قائم کررہی تھی تب حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ اور بعض دیگر اکابر علمائے دیوبندکے مشورہ سے مسلمانانِ ہند کو مسلم لیگ کی حمایت و مدد کرنے کافتویٰ دیا۔ صف علماء سے یہ پہلی آواز تھی جو مسلم لیگ کی حمایت میں بلند ہوئی جس سے مخالفین کی صفوں میں سراسیمگی پھیل گئی کیوں کہ وہ مسلمانانِ ہند میں مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کا اثر و رسوخ اچھی طرح جانتے تھے۔ان کے ہزاروں متوسلین خلفاءجگہ جگہ پھیلے ہوئے تھے۔عین اسی موقع پر جماعت اسلامی نے گانگریس کی حمایت کرکے تحریکِ پاکستان کی تائید کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ’’جب کونسلوں، میونسپلٹیوں میں ہندؤوں سے اشتراکِ عمل جائز ہےتو دوسرے معاملات میں کیوں نہیں؟‘‘۔ دارالعلوم دیوبند کی سیاسی جماعت جمعیت علمائےہند دو حصوں میں تقسیم ہوگئی :ایک جماعت کانگریس کی حامی ہوگئی جس کی سربراہی مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ فرمارہے تھےاور دوسری مسلم لیگ کی حمایت میں کھڑی ہوگئی جس کی صدارت علامہ شبیر احمد عثمانی فرمارہے تھے۔ ان دنوں مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ دارالعلوم دیوبند کے صدر مفتی تھے، حضرت تھانوی ؒ کے خلیفہ مجاز ہونے کی وجہ سے مسلم لیگ اور پاکستان کی حمایت میں تھے۔ اس مسئلے پر دونوں فریقین کے مابین آراء کا اختلاف ہوا، بحث و مباحثہ کی نوبت آئی۔ بالآخر دارالعلوم دیوبند کو اس اختلاف کے اثرات سے دور رکھنے کے لیےعلامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ، مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ اور چند دیگر علمائے کرام نے دارالعلوم سے باضابطہ استعفیٰ دے دیا اور پاکستان کی حمایت میں اپنے اوقات کو آزادانہ وقف کردیا۔بعض مخالفین اس اختلاف کو بیان کرکے اکابر دیوبندکو متہم کرتے اور لوگوں کو علمائے دیوبند اور پاکستان کی حامی جمعیت علمائے اسلام کو پاکستان دشمن قرار دے کر لوگوں کے اذہان پراگندہ کرتے ہیں، یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے جو تعصب کی علامت ہے دونوں اکابر کا اختلاف اخلاص پر مبنی تھا۔ تحریکِ پاکستان کی کامیابی کے لیے یہ بات کافی ہے کہ سب سے پہلے پاکستان کی تائید کرنے والے مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ ہیں۔
 مشرقی پاکستان کا جھنڈا لہرانے والے علامہ ظفر احمد عثمانی ؒ تھے مغربی پاکستان کا جھنڈا لہرانے والے علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ تھے حتی کہ قائدِ اعظم مرحوم نے اپنے مرنے سے پہلے وصیت کی تھی کہ ان کا جنازہ علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ پڑھائیں چنانچہ وصیت کے مطابق علامہ عثمانی رحمہ اللہ نے ہی قائد ِاعظم کا جنازہ پڑھایا جو کہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قائد اعظم سمجھتے تھے کہ علمائے دیوبند کے تعاون کے بغیر پاکستان کا بننا محال تھا۔
 اس میں شک نہیں کہ تحریک پاکستان میں ہر طبقے کی کوششیں شامل رہی ہیں لیکن جو امتیاز علماء دیوبند کو حاصل ہے وہ کسی اور کو نہیں۔تحریک پاکستان میں علماء دیوبند کے کردار کو جان بوجھ کر فراموش کیا جارہا ہے کیونکہ اسلام مخالف سیکولر لابی اس ملک میں اسلامی نظام نہیں چاہتی، تاکہ نئی نسلوں کے ذہن سے یہ مٹ جائے کہ پاکستان کی بنیاد اسلام کے نام پر قائم ہے اور اس میں علماءاسلام کا بہت بڑا کردار ہے۔

No comments:

Post a Comment