The Daily Mail Urdu

Wednesday, July 20, 2016

دنیا کی تاریخ میں پہلی دفعہ کافی کس ملک میں بنائی گئی


1920 اور 1930 کی دہائی میں ساؤتھ انڈیا میں کافی کی کاشت کو فروغ دیا جانے لگا کافی کی کھپت بڑھانے کے لئے 1935 میں انڈیا کافی بورڈ تشکیل دیا گیا جسکے زیرِ سایہ برٹش انڈیا کے بڑے بڑے شہروں میں "انڈیا کافی ہاؤس" کے نام سے ریسٹورنٹس کھولے گئے جسکی پہلی شاخ 1936 میں بمبئی چرچ گیٹ پہ کھولی گئی اسی طرز پہ کراچی اور لاہور میں انڈیا کافی ہاؤس کی شاخوں کی بنیاد رکھی گئی مگر جو اہمیت لاہور کے کافی ہاؤس کو حاصل تھی وہ کسی کے حصے میں نہ آئی
1941 میں YMCA بلڈنگ مال روڈ لاہور پہ "انٖڈیا کافی ہاؤس" کے نام سے ایک شاخ کھولی گئی جو جلد ہی شاعروں، صحافیوں، نقادوں،وکلا اور یونیورسٹیوں کے طالبعلمموں میں مقبول عام ہو گئی۔قیامِ پاکستان سے پہلے انڈیا کافی ہاؤس نے کافی جگہیں تبدیل کیں YMCA بلڈنگ،آف مال روڈ، اور ٹی ہاؤس کی جگہ بھی پہلے کافی ہاؤس نے لے رکھی تھی اور بعد میں تاآخر الفریڈ بلڈنگ اسکا مقام ٹھہرا
قیامِ پاکستان کے بعد اسکے نام "انڈیا کافی ہاؤس" سے انڈیا پہ پینٹ کر دیا گیا اے حمید اپنے مضمون "لاہور لاہور اے" میں لکھتے ہیں کہ انڈیا پہ پینٹ کر کے پاکستان لکھ دیا گیا تھا یوں یہ پاکستان کافی ہاؤس ہو گیا
کافی ہاؤس تقریبا" 35 سال تک دانشوروں،شاعروں کی آماجگاہ بنا رہا ٹی ہاؤس سے 150 گز کے فاصلے پر کافی ہاؤس لاہور کے ادبی حلقوں میں نمایاں حٰیثیت رکھتا تھا پاک ٹی ہاؤس شاعروں ادیبوں کا مرکز تھا جب کہ کافی ہاؤس میں وکلاء، سیاستدان، صحافی اور نقاد حضرات زیادہ تر بیٹھتے تھے آزادی سے پہلے کہنیا لال کپور،چراغ حسرت حسن، دیورندر ستھارتھی، سید عابد علی عابد، عبداللہ ملک، باری علیگ، اور شیخ حشام الدین یہاں بیٹھتے تھے ناصر کاظمی بھی کبھی کبھار آ جاتا تھا فلم سٹار شان کے والد ریاض شاہد مرحوم بھی کافی ہاؤس میں آیا کرتے تھے نگینہ بیکری سے اٹھ کر بیشتر ادیب کافی ہاؤس میں بیٹھنے لگے قیام پاکساتن کے بعد کافی ہاؤس میں خاصی تبدیلی رونما ہو گئی سید سبط حسین، ناصر کاظمی، ریاض قادر، اور شاکر علی مصور، مشہور وکلاء اور مختلف ادیب و شاعر اب یہاں بیٹھنے لگے تھے ڈاکٹر عبدالسلام خورشید اپنی آپ بیتی ’’رو میں ہے رخش عمر‘‘ میں لکھتے ہیں۔ کافی ہاؤس نوجوانوں ، دانشوروں اور طلباء کا مرکز تھا۔ یہاں ہر زاویہ نگاہ کے لوگ آتے اور دنیا بھر کے مسائل پر تبادلہ خیال کرتے اور اس کی فضاء اتنی Acosmopolitan تھی کہ جن دنوں فرقہ وارانہ فسادات کا زور تھا۔ ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کی جان کے لاگو تھے اور مارچ 1947ء کے فسادات میں بعض اوقات پوری مال روڈ ویران ہو جاتی تھی۔ ان دنوں بھی کافی ہاؤس میں خوب گہما گہمی رہتی تھی۔ باری علیگ کافی ہاؤس میں اپنے دوستوں ، کیمونسٹ پارٹی کے نمایاں کا رکن فیروز الدین اور منصور پاکستان کے وزیر قانون شیخ خورشید احمد خان، مولوی عبدالقدیر نعمانی اور سید احمد سعید کرمانی کے ساتھ دن میں دو مرتبہ نشست لگاتے تھے۔ وہ گھنٹوں ملکی حالات اور صحافت پر تبصرہ کرتے اور کافی ہاؤس کی فضاء باری علیگ کے قہقہوں سے گونج اٹھتی۔ یہاں زیادہ تر ایسے لوگوں کی آمدو رفت بھی رہتی تھی۔ جنہیں بحث و مباحثہ کے علاوہ اور کوئی کام نہیں تھا۔ عبدالسلام خورشید لکھتے ہیں۔ کافی ہاؤس بے کاروں اور بے روز گاروں کا بھی اڈہ تھا۔ اور ایسے لوگوں کا بھی جنہوں نے ذرا مختلف دماغ پایا۔ چنانچہ ایک ایسے صاحب بھی آتے تھے جو شہزادی الزبتھ سے یک طرفہ عشق کے دعویدار تھے۔
کافی ہاؤس کا ویٹر منشی جی بھی اپنی مثال آپ تھا منشی جی کا اصل نام شمشاد حسین صدیقی تھا لیکن بہت کم لوگ اسکے اصل نام سے واقف تھے ادب اور ادیب دوست منشی جی ادیبوں اور شاعروں کے مالی حال سے بخوبی واقف تھے اسی لئے جب کوئی پان یا سگریٹ کے پیسے نہ دے پاتا تو منشی جی سنبھال لیتے تھے قریبا" 1975 میں جب کافی ہاؤس بند ہو گی تو منشی جی مال روڈ پر ایک اور ریسٹورنٹ میں چلے گئے کافی سالوں بعد منشی جی کا بیٹا انتظار حسین سے ملنے پاک ٹی ہاؤس گیا اور منشی جی کے گزرنے کی اطلاع دی اور بتایا کہ منشی جی جب بستر المرگ پہ تھے تو کافی ہاؤس کے دوستوں کو یاد کیا کرتے تھے اور خواہش ظاہر کی تھی کہ میں انتظار حسین سے مل کر دیگر دوستوں کو نیک خواہشات پہنچاؤں۔ منشی جی کے دیگر دوستوں میں کشور ناہید، یوسف کامران، کمال احمد رضوی، سیف الدین سیف اور اعجاز حسین بٹالوی تھے – انتظار حسین کے مطابق منشی جی کافی ہاؤس کی آخری نشانی تھے اور یہ 1981 کا سال تھا
لاہور کے کافی ہاؤس اور دیگر چائے خانوں کا مقصد کھانا پینا ہرگز نہیں تھا ان چائے خانوں کے مینیجرز بھی جانتے تھے کہ انکے گاہک فقط کافی،چائے،پیسٹری،سگریٹ،پان یا چکن سینڈوچ کے لئے نہیں آتے تھے یہ لوگ گپ شپ اور حالاتِ حاضرہ پہ گفتگو کے لئے یہاں اکٹھے ہوا کرتے تھے اسی لئے بہت سے لوگ بنا کچھ کھائے پیے گھنٹوں میزوں پر محفل جمائے رکھتے تھے اور مینجرز یا بیرے ان سے ایک لفظ بھی نہیں کہتے تھے ناصر کاظمی بھی یہاں اکثر چکر لگایا کرتے تھے اور بعضن دفعہ سیاسی شخصیات بھی یہاں دیکھنے کو مل جاتی تھیں ایک دفعہ بھٹو صاحب بھی حبیب جالب سے ملنے کافی ہاؤس آن پہنچے تھے
یہ لاہور کا سنہری دور تھا اس دور کی یادوں کو دہراتے ہوئے ناجانے کیوں مجھے یونانی فلسفیوں کا دور یاد آ جاتا ہے جہاں فارغ وقت کے مشاغل میں فقط علمی بحث ہوا کرتی تھی لوگ گلی کوچوں،شراب خانوں میں علمی بحث کرتے نظر آتے روح کی تسکین ایسے ہی کاموں سے ممکن ہو سکتی ہے آج ٹی وی، موبائل،فاسٹ فوڈ کے دور میں یہ نایاب چاۓ خانے قصہ پارینہ بن چکے پاک ٹی ہاؤس کے علاوہ اور بھی ایسے ریسٹورنٹس زندہ دلانِ لاہور میں موجود ہیں لیکن علمی و ادبی ثقافت کہیں گم ہو چکی ہے
فیس بک پہ"پاک کافی ہاؤس" کے نام سے یہ ادبی صفحہ اسی دور کیسنہری یادوں کو دہرانے کے لئے بنایا گیا ہے امید ہے احباب خاص طور پہ ناسٹلجیا کے شکار دوستوں کو یہ ادنیٰ کاوش پسند آئے گی

No comments:

Post a Comment