The Daily Mail Urdu

Monday, July 18, 2016

صدرجنرل محمد ضیاء الحق کا حادثہ


17 اگست 1988ء کی شام یہ خبر سن کر پوری قوم حیران، ششدر اور دم بخود رہ گئی کہ صدر مملکت جنرل محمد ضیاء الحق اپنے رفقاء کے ساتھ ایک فضائی حادثے میں جاں بحق ہوگئے ہیں۔
صدرجنرل محمدضیاء الحق ایک نئے امریکی ٹینک کا تجربہ اور آزمائش دیکھنے کے لئے اسی صبح بہاولپور پہنچے تھے۔ پاکستان میں امریکا کے سفیر آرنلڈ رافیل اور ایک امریکی بریگیڈیئر جنرل واسم بھی ان کے ہمراہ تھے۔ امریکی ٹینک کی مشقیں اور فوجی یونٹوں کا معائنہ کرنے کے بعد جنرل ضیاء الحق شام 3 بجکر 48 منٹ پر پاکستان ائیر فورس کے ایک C-130 طیارے میں جسے صدر مملکت کے سفر کی وجہ سے ’’پاک ون‘‘ کا نام دیا گیا تھا واپس اسلام آباد روانہ ہوئے۔ اس طیارے میں جنرل ضیاء الحق کے ہمراہ جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل اختر عبدالرحمن، چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل میاں محمد افضال اور متعدد دوسرے فوجی افسران بھی سفر کررہے تھے۔
ابھی اس طیارے نے ٹیک آف کیا ہی تھا کہ پرواز کے فقط تین منٹ بعد 4 بجکر 51 منٹ پر طیارے کا رابطہ کنٹرول ٹاور سے منقطع ہوگیا اور یہ طیارے ہوا میں قلابازیاں کھاتا ہوا زمین سے ٹکرا گیا۔ زمین پر گرتے ہی طیارے کے ہزاروں ٹکڑے ہوگئے اور ان میں آگ لگ گئی۔ اس کے ساتھ ہی 31 قیمتی جانیں بھی جل کر لقمۂ اجل بن گئیں۔
صدر مملکت اور ان کے رفقا کے فضائی حادثے میں ہلاک ہونے کی خبر پورے ملک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ اسی رات سینیٹ کے چیئرمین غلام اسحاق خان ملک کے قائم مقام صدر بن گئے جنہوں نے جنرل اسلم بیگ کو چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کرنے کا اعلان کردیا۔
تین دن بعد 20 اگست 1988ء کو جنرل محمد ضیاء الحق کو اسلام آباد میں فیصل مسجد کے سایہ تلے دفن کردیا گیا۔
جنرل ضیاء الحق کے طیارے کے حادثہ کی تحقیقات کے لئے پاکستان فضائیہ نے ایک بورڈ آف انکوائری تشکیل دیا۔ اس بورڈ آف انکوائری نے جس کے سربراہ ائیرکموڈور عباس حسین مرزا تھے چند ہفتوں میں اپنی رپورٹ مرتب کرلی۔ رپورٹ کا واحد نتیجہ یہ تھا کہ ’’امکان یہ ہے کہ یہ تخریب کاری کا ایک گھنائونا واقعہ ہے جسے طیارے کے اندر سے روبکار لایا گیا اور جو آخر کار طیارے کے حادثے کا باعث بنا

No comments:

Post a Comment