The Daily Mail Urdu

Monday, August 8, 2016

کوئٹہ خودکش حملے کی ذمہ داری ہم ہے۔۔۔


کوئٹہ خودکش حملے کی ذمہ داری ہم ہے۔۔۔
آج دشمنوں نے ہمارے 93 بھائی ہم سے سے چھین لیئے ۔
کل 200 چھینے گے ۔
ایسے کرتے ہوئے وہ ہمارے ملک ہم سے چھین لیں گے ۔
اور ہم ایسے ہی ہاتھوں میں ہاتھ لیئے بیٹھ جائیں گے ۔
کیونکہ ہم بے حس قوم ہے ۔
ہمیں کسی کا پروا نہیں جب تک ہمارے گھر سے کوئی نہیں مرا ہے ہمیں کیا فرق پڑیگا۔
ہمیں کیا اندازہ ہوگا دوسروں کے درد کا۔؟
ہم تو ایک دوسرے کے پیچھے پڑے ہیں ۔
ہمارے حکمرانوں کو تو صرف اقتدار کی پڑی ہے ۔
عمران خان ہو۔ یا نواز شریف سب کے سب اپنے مفاد کے لئے کچھ نہیں کررہے ۔
اگر ہم آج اپنے گھروں سے نہیں نکلے تو پھر کھبی نہیں نکل سکتے۔
یہ تو ایک خودکش ہوا جتنے بھی ہونگے ان سب کے ذمہ دار ہم ہونگے ۔
کیونکہ ہمیں کسی کا پروا نہیں۔
ہم پاکستانی عوام جنرل راحیل شریف سے اپیل کرتے ہے۔
کہ وہ آگے آئے اور ان کرپٹ حکمرانوں سے ہمیں نجات دے ۔
اب ہمارا صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے جنرل ۔
ہم کب تک اپنے بھائیوں اور بچوں کے لاشیں اٹھاتے رہینگے ۔؟
ایک آپ ہی ہے جنرل صاحب جن سے پورے قوم نے امید بنائے رکھے ہوئے ہیں
کہ آپ آگے آکر ہمیں ظالم اور جابر حکمرانوں سے نجات دینگے ۔

وسلام ۔
یااللہ آج جتنے بھی ہمارے بھائی شہید ہوئے ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے آمین ۔

جس جس کو میری باتیں اچھے لگتے ہیں وہ ضرور شیئر کریں ۔
ایڈمن۔

Saturday, August 6, 2016

اغواء شدہ بچے کہاں جاتے ہیں؟


اغوا شدہ بچے کہاں جاتے ہیں

حالیہ دنوں میں ملک بھر سے خاص طور پر پنجاب میں بچوں کے پر اسرار طور پر غائب ہو جانے کے واقعات تواتر سے ہو رہے ہیں. قانون نافذ کرنے والے ادارے فلحال ٹامک ٹویاں ہی مار رہے ہیں اور ابھی تک اس سنگین مسلے کو حل نہیں کیا گیا.
کچھ دن پہلے سنگاپور میں ایک ٹرک پکڑا گیا ہے جس کے اندر کارڈ بورڈ میں انتہائی سفاکیت سے بچوں کے منہ ٹیپ سے بند کر کے ان کو بیہوشی کے انجکشن لگا کر بند کیا گیا تھا. یہ بچے دنیا کے مختلف ملکوں سے اغوا کر کے بحری جہازوں کے ذریے لاۓ گے تھے اور ان کو سنگاپور میں لانے کے بعد ان کو جسموں سے انسانی اعضا نکالنے کا کام کیا جانا تھا.
ترقی بزیر ملکوں میں یہ مذموم کاروبار پوری شدت سے جاری ہے. پہلے تو لوگوں کو پیسے دے کر یہ کام کیا جاتا تھا لیکن جب لالچ بڑھا تو اب بچوں کو اغوا کرنے کے بعد ان کی آنکھیں، جگر اور گردے نکال کر بیچ دیے جاتے ہیں.
کچھ عرصہ پہلے برطانیہ کے ایک اخبار میں  ایک رپورٹ شایع ہوئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ برطانوی شہری اعضا کی پیوندکاری کے لئے غریب ملکوں کا رخ کرتے ہیں جہاں پر بعض اوقات یہ اعضا عطیہ کرنے والے کی مرضی کے بغیر بھی نکال لئے جاتے ہیں.
ہمارے قانون نافظ کرنے والے اداروں کو اس نقطے پر بھی سوچنا چاہے اور اپنی تحقیقات کا دائرہ وسیع کرنا چاہے اور دیکھنا چاہیے کے کہیں یہ مذموم کام ہمارے ملک میں تو جاری نہیں. اس کے ساتھ ساتھ والدین کا بھی فرض بنتا ہے کہ اپنے بچوں کا خاص خیال رکھیں اور گھر سے بلا ضرورت باہر نہ نکلنے دیں اور ان کے کھیلنے کے اوقات اس طرح سے ہوں کے آس پڑوس یا محلے کا کوئی شخص بچوں کے کھلتے وقت ان کی نگرانی کرتا رہے اور خاص طور پر چھوٹے بچوں کا خصوصی خیال رکھا جاۓ تا کہ خدانخواستہ بعد میں کہیں پچھتانا نہ پڑے.

#محمود_مرزا

Tuesday, August 2, 2016

اللہ اور اس کے رسول کا نام


سبحان اللہ ناسا نے 160000 نوری سال کے فاصلے  پر موجود ایک سیارے کچھ کچھ تصویر بھیجی ہے جن اللہ اور محمد ص کی نام لکھے ہوئے ہے


عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ علیہ


جالندھر کے خیرالمدارس میں جلسہ ہوا,اور جلسے کے اختتام پر کھانا لگا ، دستر خوان پر امیر شریعت مولانا سید عطا اللّہ شاہ بخاری رحمۃ اللّہ علیہ بھی تھے ، انکی نظر ایک نوجوان عیسائی پر پڑی تو اسکو فرمایا ،
بھائی کھانا کھا لو "
" عیسائی نے جواب دیا "
جی میں تو بھنگی ہوں
' شاہ جی نے درد بھرے لہجے میں فرمایا "
" انسان تو ہو اور بھوک تو لگی ہے "
یہ کہہ کر اٹھے اور اسکے ہاتھ دھلا کر اپنے ساتھ بٹھا لیا....
وہ بیچارہ تھر تھر کانپتا جاتا تھا ، اور کہتا جاتا تھا " جی میں تو بھنگی ہوں "
شاہ صاحب نے خود لقمہ بنا کر اسکے منہ میں ڈالا...اسکا حجاب اور خوف کچھ دور ہوا تو شاہ صاحب نے ایک آلو اس کے منہ میں ڈال دیا ، جب اس نے آدھا آلو کاٹ لیا تو باقی شاہ صاحب نے خود کھا لیا ،اسی طرح اس نے پانی پیا تو شاہ صاحب نے اسکا بچا ہوا پانی خود پی لیا..دن گزر گیا اور وہ عیسائی کھانا کھا کر غائب ہوگیا ،
اس پر رقت طاری تھی, وہ خوب رویا اور اسکی کیفیت ہی بدل گئی, عصر کے وقت وہ عیسائی اپنے بیوی اور بچوں کو لے کر آیا اور کہا: شاہ جی
جو محبت کی آگ لگائی وہ بجھائیں بھی اور اللّہ کے لیے کلمہ پڑھا کر مسلمان کرلیں, اور میاں بیوی دونوں مسلمان ہوگئے ,
وہ اداےُ دلبری ہو یا نواےُ عاشقانہ!!
جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ !!
(بخاری کی باتیں, ص 29:30)

Monday, August 1, 2016

ایک یہودی نے روس چھوڑ کر اسراہیل میں ہائش اختیار کی


ﺍﯾﮏ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻧﮯ ﺭﻭﺱ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺎﺋﺶ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺱ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮﺍ۔ ﺍﺋﺮﭘﻮﺭﭦ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﮐﯽ ﺗﻼﺷﯽ ﻟﯽ ﮔﺌﯽ ﺗﻮ ﻟﯿﻨﻦ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻣﺠﺴﻤﮧ ﺑﺮ ﺁﻣﺪ ﮨﻮﺍ۔
ﺍﻧﺴﭙﮑﭩﺮ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ : ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟
ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﺟﻨﺎﺏ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻏﻠﻂ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ! ﺁﭖ ﮐﻮ ﮐﮩﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺗﮭﺎ ﯾﮧ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ؟
ﯾﮧ ﻟﯿﻨﻦ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﺷﺘﺮﺍﮐﯿﺖ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺭﻭﺳﯽ ﻗﻮﻡ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﮐﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺑﮍﺍ ﻓﯿﻦ ﮨﻮﮞ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﯾﺎﺩﮔﺎﺭ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﺠﺴﻤﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮯ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ۔
ﺭﻭﺳﯽ ﺍﻧﺴﭙﮑﭩﺮ ﺑﮍﺍ ﻣﺘﺎﺛﺮﺍ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ : ﺟﺎﻭ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ۔
ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻣﺎﺳﮑﻮ ﺳﮯ ﺗﻞ ﺍﺑﯿﺐ ﺍﺋﺮﭘﻮﺭﭦ ﭘﺮ ﺍﺗﺮﺍ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﮐﯽ ﺗﻼﺷﯽ ﻟﯽ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻣﺠﺴﻤﮧ ﺑﺮ ﺁﻣﺪ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺍﻧﺴﭙﮑﭩﺮ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ : ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟
ﯾﮩﻮﺩﯼ : ﺁﭖ ﮐﺎ ﺳﻮﺍﻝ ﻏﻠﻂ ﮨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﮐﮩﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ؟
ﯾﮧ ﻣﺠﺮﻡ ﻟﯿﻨﻦ ﮨﮯ ﯾﮩﯽ ﻭﮦ ﭘﺎﮔﻞ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺱ ﭼﮭﻮﮌﻧﮯ ﭘﺮ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮨﻮﺍ !
ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﺠﺴﻤﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﯾﺎﺩﮔﺎﺭ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻻﯾﺎ ﮨﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﺻﺒﺢ ﻭ ﺷﺎﻡ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻟﻌﻨﺖ ﺑﮭﯿﺞ ﺳﮑﻮﮞ !
ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯽ ﺍﻧﺴﭙﮑﭩﺮ ﻣﺘﺎﺛﺮﺍ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ : ﺟﺎﺅ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ۔
ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﺴﻤﮧ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﻨﺒﮭﺎﻝ ﮐﺮ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ۔
ﺧﯿﺮﯾﺖ ﺳﮯ ﺍﺳﺮﺋﯿﻞ ﭘﮩﻨﭽﻨﮯ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺭﺷﺘﮧ ﺩﺍﺭ ﻣﻠﻨﮯ ﺁﺋﮯ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺑﮭﺘﯿﺠﺎ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ ﺑﻮﻻ : ﺍﻧﮑﻞ ﯾﮧ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ؟
ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺑﻮﻻ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺳﻮﺍﻝ ﻏﻠﻂ ﮨﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﮐﮩﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟
ﯾﮧ ﺩﺱ ﮐﻠﻮ ﺳﻮﻧﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﺴﭩﻢ ﮐﮯ ﻻﻧﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﺠﺴﻤﮧ ﺑﻨﻮﺍﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﺴﯽ ﭨﯿﮑﺲ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﭩﻢ ﮐﮯ ﻻﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﮨﻮﺍ۔
ﻣﺎﺧﻮﺫ

بشار_الاسد کی اہلیہ کی تصویر حلب کے باسیوں کے زخموں پر نمک

شامیوں کی ایک بڑی تعداد نے اُس تصویر پر اپنے شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے جس سے شامی حکومت کی خودنمائی واضح طور پر جھلک رہی ہے۔ بالخصوص ایسے وقت میں جب کہ بشار الاسد کی اپنے عوام کے خلاف جنگ میں پانچ لاکھ کے قریب افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں اور ایسے وقت میں جب کہ بشار کی فوجیں حلب شہر کو بمباری اور تباہی کا نشانہ بنا رہی ہیں۔
شامی حکومت کی جانب سے بشار الاسد کے فیس بک پیج پر شامی صدر کی اہلیہ کی ایک تصویر نشر کی گئی ہے۔ تصویر میں خاتون اوّل حلب شہر سے آئے ہوئے ایک فوجی کے زخم کو "ہاتھ سے چُھو کر شفقت کا اظہار" کر رہی ہیں۔
تصویر کے حوالے سے بہت سے تمسخر اڑانے والے تبصرے بھی سامنے آئے ہیں۔ ایک تبصرے میں کہا گیا ہے کہ "شفقت سے بھرپور لمس قصاب کی چُھری کے اثرات مٹانے کے لیے کافی ہو گی"۔
ہفتے کے روز جاری کی گئی تصویر میں حلب شہر سے تعلق رکھنے والا بشار الاسد کا زخمی حامی "فادی" اور اس کا باپ نظر آرہے ہیں۔ تصویر نے سوشل میڈیا پر سرگرم کارکنان میں غیض و غضب اور برہمی کی لہر دوڑا دی۔ حلب وہ شہر ہے جس کے لیے بشار الاسد ، اس کی فرقہ وارانہ ملیشیاؤں ، ایرانی پاسداران انقلاب ، لبنانی تنظیم حزب اللہ کے ارکان سب نے خود کو فارغ کر لیا ہے اور بھرپور طریقے سے قتل ، تباہی و بربادی ، گرفتاری اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف عمل ہیں۔
تصویر پر کیے جانے والے تبصروں کے مطابق اس "غیرمسبوق انسانی لمس" کے ذریعے اس حقیقت کو چھپایا نہیں جا سکتا کہ " آل اسد نے شام کو تباہ اور اس کے عوام کو قتل کیا ".. اس "جادوئی" لمس سے پہلے اور بعد بھی بشار الاسد "جنگی مجرم" ہی رہے گا جس کو "خدائی یا انسانی عدالت" جلد یا بدیر اپنی گرفت میں لے گی۔